اصحاب الرسول صلی اللہ علیہ و سلم |
وسٹ بکس |
|
کوئی نام ونشان تک نہیں تھا۔(۱) اسی کیفیت میں مدینہ میں وقت گذرتارہا…آتے جاتے موسموں کاسفرجاری رہا… آخررسول اللہﷺکے یہ جلیل القدرصحابی ٗنیزآپؐ کے مشفق ومہربان چچا حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ ٗخلیفۂ سوم حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے زمانۂ خلافت کے دوران ۳۲ھ بروزِجمعہ بیاسی سال کی عمرمیں اس جہانِ فانی سے کوچ کرگئے ٗاوراپنے اللہ سے جاملے۔تجہیزوتکفین کے موقع پرخلیفۂ وقت حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ پیش پیش رہے،نمازِجنازہ بھی انہوں نے ہی پڑھائی ،اورپھرانہیں مدینہ منورہ کے قبرستان ’’بقیع‘‘میں سپردِخاک کردیاگیا۔ اللہ تعالیٰ جنت الفردوس میں ان کے درجات بلندفرمائیں۔ (۱)حضرت عباسؓ سے دعاء کرانے کے اس واقعے کے حوالے سے یہاں یہ تنبیہ ضروری ہے کہ ’’وسیلہ‘‘ سے متعلق عام طورپرجوغلط عقائدپائے جاتے ہیں،ان کی بناء پراس واقعہ سے کوئی غلط استدلال نہ کرے،کیونکہ جائزاورشرعی وسیلہ محض وہی ہے جودرجِ ذیل امورمیں سے کسی پرمشتمل ہو: ------------------------------ (۱) اللہ سبحانہ وتعالیٰ کوخوداس کے اسماء وصفات کاوسیلہ دینا،مثلاً: رحمت کی طلب ہے تویوں دعاء کرنا’’ یارحمن، یارحیم‘‘ مغفرت کی طلب ہے تو’’ یاغفور،یاغفار ‘‘ رزق کی طلب ہے تو’’یارزاق‘‘ وغیرہ… (۲) اپنے ایمان اورعملِ صالح کاوسیلہ،جیساکہ ’’حدیثِ غار‘‘کے نام سے معروف حدیث میں ان تین افرادمیں سے ہرایک نے اپنے اپنے عملِ صالح کاتذکرہ کرتے ہوئے اس مصیبت سے نجات کیلئے اللہ سے دعاء وفریادکی تھی ،اورتب وہ چٹان وہاں سے سرک گئی تھی،اوروہ تینوں زندہ سلامت باہرنکل آئے تھے۔ (۳)کسی صالح ٗمتقی وپرہیزگارانسان سے اس کی زندگی میں دعاء کروانا، جیساکہ اس واقعہ میں یہی صورتِ حال ہے کہ حضرت عمرؓ نے قحط سے نجات کیلئے حضرت عباسؓ سے دعاء کروائی…واللہ الموفق والہادی الی سواء السبیل۔ الحمدللہ آج بتاریخ ۴/صفر ۱۴۳۶ھ ، مطابق۲۶/نومبر ۲۰۱۴ء بروزبدھ یہ باب مکمل ہوا۔ رَبَّنَا تَقَبَّل مِنَّا اِنّکَ أنتَ السَّمِیعُ العَلِیمُ ، وَتُب عَلَینَا اِنَّکَ أنتَ التَوَّابُ الرَّحِیمُ