اصحاب الرسول صلی اللہ علیہ و سلم |
وسٹ بکس |
|
چنانچہ اس بارے میں حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے رسول اللہﷺکے اولین جانشین اور خلیفۂ وقت حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ سے اجازت چاہی،جس پرحضرت ابوبکرؓنے اصرارکیاکہ:’’بلال!آپ ہمیں چھوڑکرمت جائیے‘‘لیکن بلالؓ جانے پر مُصر تھے، دونوں طرف سے اصرارکایہ سلسلہ چلتارہا…آخرحضرت بلال ؓنے حضرت ابوبکرصدیقؓ کو مخاطب کرتے ہوئے یوں کہا’’اگرآپ اس وجہ سے مجھے جانے کی اجازت نہیں دے رہے کہ آپ نے مجھے مکہ میں اُمیہ سے خریدکرآزادکیاتھا…اوراپنے اسی احسان کی وجہ سے آپ یہ چاہتے ہیں کہ میں آپ کی بات مانوں …تب ٹھیک ہے ،میں حاضرہوں… اور اگر آپ نے مجھے محض اللہ کی رضاکی خاطرآزادکیاتھا…تومیری آپ سے گذارش ہے کہ آپ مجھے مت روکئے ، مجھے جانے کی اجازت دے دیجئے‘‘ حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے جب بلالؓ کی زبانی یہ بات سنی… توانہیں مدینہ سے ملکِ شام چلے جانے کی اجازت دے دی۔ ٭چنانچہ حضرت بلال بن رباح رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ سے ملکِ شام منتقل ہوگئے، اوروہاں اسلامی لشکرمیں شامل ہوکراللہ کے دین کی سربلندی کی خاطرجدوجہدمیں مشغول ومنہمک ہوگئے۔ جس طرح رسول اللہﷺکے مبارک دورمیں انہیں انتہائی عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھا جاتاتھا،اسی طرح اب ملکِ شام میں بھی سبھی لوگ دل وجان سے ان کی عزت کیاکرتے تھے، لیکن بلالؓ ہمیشہ یہی کہاکرتے : اِنّمَا أنَا عَبدٌ حَبَشِيٌّ ، اِبنُ أَمَۃٍ سَوْدَاء … یعنی’’میں تومحض ایک حبشی غلام ہوں ،ایک سیاہ فام کنیزکابیٹا…‘‘ دراصل یہ تومحض حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی طرف سے تواضع اورعجزوانکسارتھا…ورنہ