اصحاب الرسول صلی اللہ علیہ و سلم |
وسٹ بکس |
|
عمواس‘‘کے نام سے یادکیاجاتاہے(۱)یہ جان لیوامرض بہت بڑے پیمانے پراموات کاسبب بنا…دیکھتے ہی دیکھتے ہی بہت بڑی تعدادمیں لوگ اس کی لپیٹ میں آکرلقمۂ اجل بنتے چلے گئے۔ انہی دنوں ایک روزاچانک حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کوخلیفۂ وقت حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ کی طرف سے خط موصول ہوا، جس میں نہایت سختی کے ساتھ یہ تاکیدکی گئی تھی کہ ’’آپ فوراً جلدازجلدمیرے پاس یہاں مدینہ چلے آئیے…کیونکہ ایک بہت ہی ضروری معاملے میںمیں آپ سے فوری مشورہ کرناچاہتاہوں…‘‘ نیزاس خط میں یہ بھی لکھاتھاکہ’’میرایہ خط آپ کواگرصبح کے وقت موصول ہوتوشام سے پہلے روانہ ہوجائیے…اوراگرشام کے وقت موصول ہوتوصبح سے پہلے روانہ ہوجایئے…‘‘ ------------------------------ (۱) کہاجاتاہے کہ اس طاعون کی ابتداء چونکہ بیت المقدس کے قریب’’عمواس‘‘نامی بستی سے ہوئی تھی ٗلہٰذااسی مناسبت سے یہ ’’طاعون عمواس‘‘کے نام سے معروف ہوگیا،اس طاعون کی لپیٹ میں آنے کی وجہ سے وہاں موجوداسلامی لشکرمیں پچیس ہزارافرادلقمۂ اجل بن گئے…جن میں بہت بڑی اکثریت حضرات صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تھی…متعدداہلِ علم کے بقول رسول اللہﷺنے مختلف اوقات میں قربِ قیامت کی جومتعددعلامات بیان فرمائیں…ان میں اس’’ طاعون عمواس‘‘ کاتذکرہ بھی ہے…ملاحظہ ہوحدیث : اُعدُد سِتّاً بَینَ یَدَي السَاعۃِ یعنی’’ قیامت سے قبل چھ چیزیں شمارکرنا‘‘ اورپھراسی حدیث میں ان چھ چیزوں میں سے ایک یہ چیزبیان فرمائی: ثُم فَتحُ بَیتِ المَقدِس ، ثُمَ مَوتَانِ یَأخُذُ فِیکُم کَقُعَاصِ الغَنَم… یعنی’’پھر فتحِ بیت المقدس ، پھرایک بیماری ظاہرہوگی جس کے نتیجے میں تم لوگ اس قدربڑے پیمانے پرموت کاشکارہوجاؤگے کہ جس طرح بکریاں مہلک بیماری پھیل جانے کی وجہ سے نہایت سرعت کے ساتھ بہت بڑی تعدادمیں مرجایاکرتی ہیں…‘‘(صحیح بخاری[۳۲۱۲]کتاب الجزیۃ والموادعۃ مع اہل الحرب ،باب مایُحذر من الغدر…)چونکہ اسی حدیث میں اس علامت کوفتحِ بیت المقدس کے فوری بعدبیان کیاگیاہے لہٰذا متعدداہلِ علم کے بقول اس علامت سے یہی طاعون عمواس ہی مرادہے جوفتحِ بیت المقدس کے فوری بعدظاہرہواتھا۔