ذکر اللہ کے ثمرات |
ہم نوٹ : |
|
چین پاتی ہے۔ سر کے اوپر بھی پانی ہو، داہنے بھی، بائیں بھی، اوپر بھی، نیچے بھی پانی غرض ہر طرف سے پانی میں ڈوبی ہوئی ہو لیکن اگر پانی کے ساتھ ہو مثلاً مچھلی کا سر کھلا ہو تو سمجھ لو کہ اس مچھلی کی حیات ننگِ ممات ہوتی ہے، سوکھتی چلی جاتی ہے لہٰذا اگر جسم کا کوئی عضو گناہ میں مبتلا ہے تو وہ دریائے قربِ الٰہی سے باہر ہے، اس کی روح کی مچھلی پانی کے ساتھ تو ہے مگر پانی میں نہیں ہے، اس لیے اَلَا بِذِکْرِ اللہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ کی تفسیر میں اس بات کو علامہ قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ وقت کے امام بیہقی نے فرمایا کہ اے دوستو! اَلَابِذِکْرِ اللہِ میں جو ’’باء‘‘ہے یہ’’باء‘‘بمعنیٰ ساتھ کے نہیں ہے، مصاحبت کےمعنیٰ میں نہیں ہے بلکہ بمعنیٰ’’فِیْ‘‘کے ہے۔ کَمَاۤاَنَّ السَّمَکَۃَ تَطْمَئِنُّ فِی الْمَاءِ لَابِالْمَاءِ؎ جس طرح مچھلی پانی میں ڈوب کر چین پاتی ہے، پانی کے ساتھ نہیں۔ مثلاً مچھلی کا سر کھلا ہوا ہے یا اس کے جسم کا کوئی حصہ پانی سے خارج ہے تو اس مچھلی کو چین نہیں مل سکتا۔ اسی طرح اگر ہمارا کوئی عضو گناہوں میں مبتلا ہے، آنکھیں بدنظری میں مبتلا ہیں، کان گانا سننے میں مبتلا ہیں، زبان جھوٹ اور غیبت میں مبتلا ہے تو سمجھ لو کہ دریائے قربِ الٰہی سے ہماری روح کی مچھلی کے وہ اعضاء خارج ہیں لہٰذا روح کو چین نہیں مل سکتا۔ اس لیے مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ نے خدا کے عاشقوں کو اللہ کے دریائے قرب کی مچھلی سے تعبیر فرمایا ہے اور کیا پیارا عنوان ہے ؎ ماہیانِ قعرِ دریائے جلال یہ اللہ والے دریائے قربِ جلال کی گہرائیوں میں رہنے والی مچھلیاں ہیں کیوں کہ جو مچھلی گہرے پانی میں نہیں ہوتی، تھوڑے پانی میں ہوتی ہے، جون کے مہینے میں اس کو چھوٹے چھوٹے بچے بھی پکڑلیتے ہیں۔جن کا ذکرُ اللہ اور تقویٰ کا دریائے نور اور دریائے قرب گہرا نہیں ہے یہ معاشرہ سے، سوسائٹی سے، جاہ اور مال، حبِ دنیا و نام کے چکر میں آکر استقامت سے محروم ہوجاتے ہیں اور جو مچھلیاں گہرے پانی میں ہوتی ہیں، جب سورج پانی کی سطح ظاہر کو گرم کرتا ہے وہ اندر گھس جاتی ہیں، اس لیے حکم ہے کہ کثرت سے اللہ کو یاد کرو تاکہ تمہارے دریائے قرب میں گہرائیاں ہوں اور غیراللہ تم کو متأثر نہ کرسکے اور تم اس وقت دریائے قرب کی گہرائیوں میں اُترجاؤ۔ لہٰذا اللہ کو کثرت سے یاد کرو۔ ذکر کے تھوڑے سے پانی میں گزارہ نہیں ہوگا۔ ------------------------------