M
اہل السنت والجماعت کی طرف سے حیات عیسیٰ علیہ السلام کا آخری پرچہ
میرے پیارے بھائیو! آپ نے دیکھ لیا کہ مولوی سلیم صاحب نے تسلیم کر لیا کہ عیسیٰ علیہ السلام کی موت مرزاقادیانی کے الہام سے ہوئی۔ بڑے زور سے بیت المقدس اور تحویل قبلہ کا حوالہ دیا۔ جواب سن کر ساکت ہوگئے۔ میں نے کہا کہ دو حلّیہ ایک شخص کا نہیں ہوسکتا۔ اسی لئے حضور نے دونوں جگہ عروہ ابن مسعودؓ کی شکل میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو دیکھا۔ اس کا بھی جواب نہیں دیا۔ انہوں نے ’’کشتی نوح‘‘ کے حوالے کو ادھورا دیا ہے۔ اگر کشتی نوح میں زندگی کا لفظ نہ ہوگا تو جو انعام مانگو گے دوں گا۔ لیکن اگر وہاں زندگی کا لفظ ہے۔ آپ اپنی زندگی کے لئے کشتی نوح کی زندگی کو چھپاتے ہیں تو یادگیر والے خود فیصلہ کر دیں گے۔ کشتی نوح میرے پاس موجود ہے۔ ہمت کرکے حوالہ مانگو، خدا کی قدرت کا تماشہ دیکھو۔ ’’ھو الذی ارسل رسولہ‘‘ کی صاف آیت جو عیسیٰ علیہ السلام کو دنیا میں دوبارہ لاتی ہے۔ اس کو میں نے ہر پرچے میں بطور چیلنج پیش کیا ہے۔ مگر مولوی صاحب خاموش رہے ؎
ناؤ کاغذ کی کبھی چلتی نہیں
اب آئندہ نیا جواب نہیں دے سکتے۔ اس لئے کہ یہ میرا آخری پرچہ ہے۔ شرائط مناظرہ میں یہی ہے۔ میں نے (تذکرہ ص۴۰۳) سے گائے کا گوشت کھانا دکھادیا۔ اگر وہاں کشفی کا لفظ دکھا دیتے۔ منہ مانگا انعام دیتا۔ مگر قیامت تک تم دکھا نہیں سکتے۔ مرزاقادیانی (ایام الصلح ص۱۳۷، خزائن ج۱۴ ص۳۸۱)میں وفات مسیح کے عقیدے کو معتزلہ کا عقیدہ کہا ہے۔ یہ خود دلیل ہے کہ اہل سنت والجماعت کا یہ عقیدہ نہیں۔ تم کو عیسیٰ علیہ السلام کی وفات سے مرزاقادیانی معتزلہ بناگئے۔ جناب نے صدیق اکبرؓ کے خطبے سے وفات مسیح ثابت کیا۔ لیکن تم کو معلوم نہیں کہ اس سے موسیٰ علیہ السلام بھی مر جائیں گے۔ حالانکہ مرزاقادیانی نے موسیٰ علیہ السلام کی زندگی کو بڑے زوروں سے تسلیم کیا ہے۔ اس کے علاوہ اگر سب صحابہ یہی سمجھے کہ جتنے (نبی) تھے۔ سب مر گئے تو پھر حضرت ابوہریرہؓ یہ کیوں کہتے ہیں۔ ’’فاقرؤا ان شئتم وان من اہل الکتاب‘‘
(بخاری شریف ج۱ ص۴۹۰)
حضرت ابوہریرہؓ اجماع کے اندر (ہیں) یا باہر اگر صحاح ستہ کی حدیث کو دیکھ لیا ہوتا تو کم ازکم دو درجن صحابہ کرامؓ کے نام مل جاتے جو عیسیٰ علیہ السلام کی دوبارہ نازل ہونے کی روایت