دیں گے۔ جس سے ثابت ہو جائے گا کہ معاذ اس کفر کے خطرے میں تو اﷲتعالیٰ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت ہی نے ہمیں ڈالا تھا۔ ہمیں قطعاً کوئی اندیشہ نہیں ہے کہ اس ریکارڈ کو دیکھ کر بھی اﷲتعالیٰ ہمیں کسی نئے نبی پر ایمان نہ لانے کی سزا دے ڈالے گا۔ لیکن اگر نبوت کا دروازہ فی الواقع بند ہے اور کوئی نبی آنے والا نہیں ہے اور اس کے باوجود کوئی شخص کسی مدعی کی نبوت پر ایمان لاتا ہے تو اسے سوچ لینا چاہئے کہ اس کفر کی پاداش سے بچنے کے لئے وہ کون سا ریکارڈ خدا کی عدالت میں پیش کر سکتا ہے۔ جس سے وہ رہائی کی توقع رکھتا ہو۔ عدالت میں پیشی ہونے سے پہلے اسے اپنی صفائی کے مواد کا یہیں جائزہ لے لینا چاہئے اور ہمارے پیش کردہ مواد سے مقابلہ کر کے خود ہی دیکھ لینا چاہئے کہ جس صفائی کے بھروسے پر وہ یہ کام کر رہا ہے۔ کیا ایک عقلمند آدمی اس پر اعتماد کر کے کفر کی سزا کا خطرہ مول لے سکتا ہے؟
۲…اب نبی کی آخر ضرورت کیا ہے؟
دوسری قابل غور بات یہ ہے کہ نبوت کوئی ایسی صفت نہیں ہے جو ہر اس شخص میں پیدا ہو جایا کرے جس نے عبادت اور عمل صالح میں ترقی کر کے اپنے آپ کو اس کا اہل بنالیا ہو۔ نہ یہ کوئی ایسا انعام ہے جوکچھ خدمات کے صلے میں عطاء کیا جاتا ہو۔ بلکہ یہ ایک منصب ہے۔ جس پر ایک خاص ضرورت کی خاطر اﷲتعالیٰ کسی شخص کو مقرر کرتا ہے۔ وہ ضرورت جب داعی ہوتی ہے تو ایک نبی اس کے لئے مامور کیا جاتا ہے اور جب ضرورت نہیں ہوتی یا باقی نہیں رہتی تو خواہ مخواہ انبیاء پر انبیاء نہیں بھیجے جاتے۔
قرآن مجید سے جب ہم یہ معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ نبی کے تقرر کی ضرورت کن کن حالات میں پیش آئی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ صرف چار حالتیں ایسی ہیں جن میں انبیاء مبعوث ہوئے ہیں۔
۱…
اوّل یہ کہ کسی خاص قوم میں نبی بھیجنے کی ضرورت اس لئے ہو کہ اس میں پہلے کوئی نبی نہ آیا تھا اور کسی دوسری قوم میں آئے ہوئے نبی کا پیغام بھی اس تک نہ پہنچ سکتا تھا۔
۲…
دوم یہ کہ نبی بھیجنے کی ضرورت اس وجہ سے ہو کہ پہلے گزرے ہوئے نبی کی تعلیم بھلا دی گئی ہو۔ یا اس میں تحریف ہوگئی ہو اور اس کے نقش قدم کی پیروی کرنا ممکن نہ رہا ہو۔
۳…
سوم یہ کہ پہلے گزرے ہوئے نبی کے ذریعہ مکمل تعلیم وہدایت لوگوں کو نہ ملی ہو اور تکمیل دین کے لئے مزید انبیاء کی ضرورت ہو۔