میں تبحر حاصل کرے اور ان تمام علوم میں مہارت تامہ پیدا کرے۔ جو علوم اٰلیہ کہلاتے ہیں۔ علاوہ ازیں یہ بھی لازم ہے کہ آنحضرتﷺ کے ارشادات عالیہ اور صحابہ، تابعین اور ائمہ لغت کے اقوال بھی اس کے پیش نظر ہوں اور تفسیر کرتے وقت اسلام کے مسلمات اور اجماع امت سے ادھر سے ادھر نہ جائے۔
قرون اولیٰ کے مفسرین (شکر اﷲ مساعیہم) نے عموماً ان امور کو ملحوظ رکھا ہے۔ لیکن افسوس ہے کہ موجودہ زمانہ میں بعض ایسے مفسرین پیدا ہورہے ہیں۔ جنہیں اپنی قابلیت اور تحقیق کا تو بہت بڑا دعویٰ ہے۔ لیکن جب ان کی تحریرات اور تقریرات کو دیکھا اور سنا جاتا ہے تو بے اختیار خواجہ حافظ کا یہ شعر یاد آجاتا ہے ؎
ہزار نکتۂ باریک ترز مو اینجاست
نہ ہر کہ سرتبراشد قلندری داند
آج کل لفظ ’’خاتم‘‘ ایسے مفسرین ی جو لانگاہ تحقیق بن رہا ہے اور اس کی ایسی توجہیں پیش کی جاتی ہیں جنہیں پڑھ کر بے ساختہ ہنسی آتی ہے۔ ہمیں ایسی رکیک تاویلات کے متعلق خامہ فرسائی کی ضرورت نہ تھی۔ لیکن چونکہ اس قسم کی تحریرات سے عوام میں غلط فہمی پیدا ہونے کا اندیشہ ہے۔ اس لئے ہم اس کے متعلق کچھ عرض کرنا چاہتے ہیں۔
’’اللہم ارنا الحق حقا وار زقنا اتباعہ وارنا الباطل باطلاً وارزقنا اجتنابہ، بحرمۃ سید المرسلین وخاتم النبیین علیہ وعلی اٰلہ واصحابہ من الصلوٰۃ افضلہا ومن التسلیمات اکملہا‘‘
خاتم
صحابہ کرامؓ کے نزدیک خاتم کا مفہوم
خداوند تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’ما کان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول اﷲ وخاتم النبیین وکان اﷲ بکل شیٔ علیما (احزاب:۴۰)‘‘ {محمدﷺ تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں وہ تو اﷲ کے رسول ہیں اور پیغمبروں کے آخر میں ہیں اور اﷲ ہر چیز کو خوب جانتا ہے۔}