آنے کی ضرورت باقی نہ رہی۔ ’’الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دیناً (المائدہ:۳)‘‘ {آج میں نے تمہارا دین تمہارے لئے کامل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت کو پورا کر دیا اور تمہارا دین اسلام ہونے پر میں راضی ہوا۔}
چونکہ نبی کی ضرورت دنیا میں تکمیل انسانی کے کسی نئے پہلو کو واضح کرنے کے لئے ہوتی تھی اور قرآن مجید نے تکمیل انسانی کے سارے پہلوؤں کو کمال تک پہنچا دیا۔ اس لئے کسی نئے نبی کی ضرورت بھی نہ رہی۔
عہد کا بوجھ
قرآن مجیدختم نبوت کے مسئلہ کو ایک اور رنگ میں بیان کرتا ہے کہ اﷲتعالیٰ نے تمام انبیاء اور ان کی امتوں سے یہ عہد لیا کہ جب وہ عظیم الشان رسول آئے تو اس پر ایمان لانا اور اس کی مدد کرنا اور کہاگیا تھا کہ ’’أ اقررتم واخذتم علیٰ ذالکم اصری (آل عمران:۸۰)‘‘ {کیا تم اقرار کرتے ہو اور اس پر میرے عہد کا بوجھ (اصر) لیتے ہو؟}
’’قالوا اقررنا‘‘ {انہوں نے کہا ہم اقرار کرتے ہیں۔}
یہ اقرار اور وہ بوجھ جو ابتدائے آفرنیش سے ان پر چلا آرہا تھا۔ آپؐ نے اتار دیا۔ جیسا کہ قرآن مجید فرماتا ہے: ’’ویضع عنہم اصرہم (الاعراف:۱۵۷)‘‘ {اور (محمدﷺ) ان سے ان کا بوجھ اتارتا ہے۔}
یہ عہد کا بوجھ سب اقوام کے سر پر رہا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت پر جو ایمان لائے ان سے یہ بوجھ اترگیا۔ آپؐ کے بعد کسی اور نبی پر ایمان لانے کا بوجھ قرآن مجید نے ہم پر نہیں ڈالا۔ جسے کوئی اورنبی آکر اتارے۔ بلکہ ہمیں دعا سکھلائی کہ: ’’ربنا ولا تحمل علینا اصراً کما حملتہ علی الذین من قبلنا (البقرہ:۲۸۶)‘‘ {اے ہمارے رب ہم پر بوجھ نہ ڈالنا۔ جیسا تو نے ان پر ڈالا جو ہم سے پہلے تھے۔}
امت مسلمہ کا گواہ
مسئلہ ختم نبوت کو قرآن مجید ایک اور انداز میں یوں بیان کرتا ہے: ’’فکیف اذا جئنا من کل امۃ بشہید وجئنا بک علیٰ ہؤلاء شہیدا (النسائ:۴۱)‘‘ {پھر کیا حال ہوگا جب ہم ہر امت سے ایک گواہ لائیں گے اور تجھ کو ہم ان پر گواہ بناکر لائیں گے۔}