نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم!
وفات مسیح ناصری علیہ السلام کے متعلق جماعت احمدیہ کا تیسرا پرچہ
ہمارے دو سابقہ پرچوں کے جواب میں فریق مخالف نے صریح کوشش کی ہے کہ قرآن شریف، حدیث شریف اور قانون قدرت کو غلط ثابت کرے اور ایک لاکھ چوبیس ہزار سچے نبیوں پر اور پھر سیدنا ومولانا حضرت محمد مصطفیٰﷺ پر عیسیٰ علیہ السلام کی فضیلت ظاہر کرے۔ کاش! اتنا تو سوچا ہوتا کہ ایک وہ زمانہ تھا جب کہ سرور انبیاء حضرت محمد رسول اﷲﷺ کی وفات ہوگئی۔ آپ کی نعش مبارک ابھی دفن نہیں کی گئی تھی۔ شمع رسالت کے پروانے صحابہ کرامؓ دیوانہ وار ادھر ادھر دوڑتے پھر رہے تھے۔ آنحضرتﷺ کی محبت اور عقیدت کے تقاضہ سے وہ حضورﷺ کی موت کا تصور بھی نہ کر سکتے تھے اور وہ چاہتے تھے کہ اگر موت کوئی جسمانی چیز ہو اور ان کے ہاتھ آجائے تو وہ اسے ہی جان سے مار ڈالیں۔ آنحضرتﷺ کی موت ان کے لئے ایک ناقابل یقین شے تھی کہ اسی حالت میں حضرت ابوبکر صدیقؓ نے خطبہ ارشاد فرمایا کہ اے فدایان اسلام (محمدﷺ) تم تو سچے خدا کے پرستار ہو اور خدا ہمیشہ کے لئے زندہ ہے۔ آنحضرتﷺ تو ایک رسول تھے۔ جن کا وقت پورا ہوگیا اور وہ وفات پاگئے۔ کیا اب تم اس حادثہ کے باعث حیی وقیوم خدا سے منہ پھیر لو گے؟ یہ سننا تھا کہ صحابہ کرامؓ نے صبر کا دامن تھام لیا اور دربار نبویﷺ کے شاعر حضرت حسان بن ثابتؓ نے کہا ؎کنت السواد لناظری فعمی علیک الناظر
من شاء بعدک فلیمت فعلیک کنت احاذر
یعنی اے رسول عربیﷺ تو میری آنکھ کی پتلی تھا۔ میں تیری وفات سے اندھا ہوگیا ہوں۔ اب جو چاہے مرا کرے میری بلا سے مجھے تو یہی دھڑکا تھا کہ مبادا آپ فوت ہو جائیں۔
لیکن آج یہ عالم ہے کہ ہمارے کچھ بھائی حضرت خاتم النبیینﷺ کو نہ صرف فوت شدہ سمجھے ہیں۔ بلکہ آپﷺ کے فیضان نبوت کو اس حد تک بند مانتے ہیں کہ اس خیر امت میں اب کوئی ایسا انسان پیدا نہیں ہوسکتا جو اصلاح امت کی خدمت بجا لائے اور وہ منتظر ہیں کہ بنی اسرائیل کا ایک پرانا نبی آسمان سے اترے اور ان کا امام ہو۔ مگر جب آسمان پر کوئی گیا ہی نہیں اور خدا شاہد ہے کہ آج تک کوئی آسمان پر نہیں گیا تو کوئی آسمان سے اترے گا کیسے؟ حضرت بانی ٔ