جہاد کی دوامی اہمیت
قرآن میں اس کا مقصد یہ بیان کیاگیا ہے۔ ’’وقاتلوہم حتیٰ لا تکون فتنۃ ویکون الدین ﷲ (بقرہ:۲۴)‘‘ اسلام دشمن طاقتوں سے لڑو، یہاں تک کہ فتنہ وفساد باقی نہ رہے اور ملک میں خدا ہی کا دین غالب ہو جائے۔ خدا کی بندگی سے روکنا یا اس کی جگہ باغیانہ نظام قائم کرنا انسانوں پر بہت بڑا ظلم ہے۔ کیونکہ لادینی نظام انہیں آخرت کی ابدی نعمتوں سے محروم کردیتا ہے۔ انسانی زندگی میں مخلوق کا اپنے حقوق سے محروم ہو جانا بھی بہت بڑا ظلم ہے۔ اس لئے دنیا میں اسلام کے اجتماعی نظام عدل کا قیام مسلمانوں کا ملی اور ایمانی فریضہ ہے اور اس مقصد کے لئے اپنے ماننے والوں کو اسلام ہر وقت مستعد اور سرگرم عمل دیکھنا چاہتا ہے۔
’’اعدولہم ما استطعتم من قوۃ ومن رباط الخیل (انفال:۸)‘‘ اور جہاں تک ہو سکے پورے زور سے اور گھوڑوں کے تیار رکھنے سے ان کے مقابلے کے لئے مستعد رہو۔ یعنی وقت کے لحاظ سے اپنے تمام وسائل وذرائع کے ساتھ اسلام کو حکمران قوت بنانے کے لئے کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھا جائے۔ اگر اسی جہانگیر ملی فریضہ میں کوئی فرد یا جماعت کوتاہی وغفلت برتے گی تو وہ سخت سزا کی مستحق ہوگی۔ چنانچہ سورہ توبہ میں ارشاد ہے کہ اگر تم نے اﷲ اور اس کے رسول اور جہاد فی سبیل اﷲ کے مقابلے میں دنیوی کاروبار کو ترجیح دی تو تمہاری جگہ اﷲتعالیٰ کسی دوسری قوم کو لے آئے گا۔ جو یہ فرائض سرانجام دے گی۔
ایک مخلص اور سچے مومن اور منافق کی کسوٹی جہاد ہی ہے۔ منافقین اور ڈیوٹی چور مختلف حیلوں، بہانوں سے اس فریضہ سے جان چھڑانے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ مخلصین کے لئے نہایت واضح حکم ہے۔ ’’وجاہدوا فی اﷲ حق جہادہ (الحج:۱۰)‘‘ اﷲ کی بندگی اور اس کی رضا جوئی کی راہ میں تمام مزاحم طاقتوں سے لڑنے کا حق ادا کرو۔ ملی زندگی کے لئے جہاد روح کی حیثیت رکھتا ہے۔ مسلمان اس پر جب تک اس کی ضروری شرائط وآداب کے ساتھ عمل پیرا رہیں گے فتح وکامرانی عزت اور آزادی انہیں خوش آمدید کہے گی اور جب وہ لہو گرم اور ایمان تازہ رکھنے والے فریضہ میں سست پڑ جائیں گے تو پھر ذلت وغلامی اور نکبت وپسماندگی ان کے گلے کا ہار ہوگی۔ اس حقیقت پر مندرجہ ذیل احادیث روشنی ڈالتی ہیں۔
ترک جہاد کا نتیجہ دائمی غلامی وذلت ہے
آنحضورﷺ نے فرمایا: ’’واخذتم اذناب البقر ورضیتم بالزرع وترکتم