قرآن شریف کو مرزاقادیانی نے اپنے منہ کی باتیں کہا اور اپنی وحی کو قرآن قرار دیا اور حدیث شریف سے یہ کہہ کر پیچھا چھڑایا کہ میں حکم ہوں۔ مجھے اختیار ہے کہ جس حدیث کو چاہوں قبول کروں اور جسے چاہوں ردی کی ٹوکری میں پھینک دوں۔ کوئی ان عقل کے اندھوں سے پوچھے کہ مرزاقادیانی کو یہ ڈکٹیٹر شپ کس طرح مل گئی۔ اصل جھگڑا تو ان کی ڈکٹیٹری کا ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ مرزاقادیانی جھوٹا ہے وہ حکم نہیں بن سکتا فلاں حدیث کی رو سے، اور مرزاقادیانی کہتا ہے کہ میں حکم ہوں۔ میں تمہاری حدیث ہی کو نہیں مانتا۔ آپ ہی غور کریں کہ یہ سوال دیگر وجواب دیگر ہے کہ نہیں۔ اگر ہم مرزاقادیانی کو حکم مان لیتے تو پھر اسے حدیث کی رو سے جھوٹا کیوں کہتے ؎
من چہ می سرائم وطنبورۂ من چہ می سراید
اس کو کہا جاتا ہے۔
جب قرآن شریف اور حدیث شریف کے متعلق مرزاقادیانی اور مرزائی امت کا یہ عقیدہ ہے تو پھر ان سے بحث ومناظرہ کس دلیل سے اور کس طرح کیا جاسکتا ہے؟ مولانا روم فرماتے ہیں ؎
حملہ برخود میکنی اے سادہ مرد
مثل آں شیرے کہ برخود حملہ کرد
اسی طرح یہ قادیانی بھی قرآن وحدیث پر حملہ نہیں کرتے۔ بلکہ خود اپنی سمجھ اور علم وعقل پر اپنے ہاتھ سے تیز کلہاڑا چلا رہے ہیں۔
حرمین شریفین
۱… ’’کشفی طور پر میں نے دیکھا کہ میرے بھائی صاحب مرحوم مرزاغلام قادر میرے قریب بیٹھ کر قرآن شریف کی تلاوت کر رہے ہیں اور پڑھتے پڑھتے انہوں نے ان فقرات کو پڑھا۔ ’’انا انزلناہ قریباً من القادیان‘‘ تو میں نے سن کر بہت تعجب کیا کہ کیا قادیان کا نام بھی قرآن شریف میں لکھا ہوا ہے۔ تب انہوں نے کہا یہ دیکھو کیا لکھا ہوا ہے۔ تب میں نے نظر ڈال کر جو دیکھا تو معلوم ہوا کہ فی الحقیقت قرآن شریف کے داہنے صفحے میں قریب نصف کے موقعہ پر یہی الہامی عبارت لکھی ہوئی موجود ہے۔ تب میں نے اپنے دل میں کہا کہ ہاں واقعی طور پر قادیان کا نام قرآن شریف میں درج ہے اور میں نے کہا کہ تین شہروں کا نام اعزاز کے ساتھ قرآن شریف میں درج کیاگیا ہے۔ مکہ اور مدینہ اور قادیان۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۷۷، خزائن ج۳ ص۱۴۰)
قادیانی امت غور کرے کہ مرزاقادیانی کا یہ کشف شیطانی تھا یا رحمانی۔ اگر شیطانی ہے تو دل ماشاد اور اگر رحمانی تو سچا یا جھوٹا۔ اگر جھوٹا تو پھر کہنا درست اور اگر سچا تو پھر تمام قادیانی امت