انبیاء علیہم السلام کی دعوت بھی خیر ہی کی طرف تھی
۱… ’’وجعلناہم ائمۃ یہدون بامرنا واوحینا الیہم فعل الخیرات واقام الصلوٰۃ وایتاء الزکوٰۃ وکانوا لنا عابدین (الانبیائ:۵)‘‘ {اور ان انبیاء کو پیشوا بنایا کہ ہمارے حکم سے ہدایت کرتے تھے اور ان کو نیک کام کرنے اور نماز پڑھنے اور زکوٰۃ دینے کا حکم بھیجا اور وہ ہماری ہی عبادت کیا کرتے تھے۔}
۲… ’’یأمرہم بالمعروف وینہٰہم عن المنکر (الاعراف:۱۹)‘‘ {آپﷺ ان کو معروف کا حکم دیتے ہیں اور منکر سے روکتے ہیں۔}
اس امت کو بھی خیر امت کا خطاب ملا۔ اس کی دعوت بھی خیر ہی کی طرف ہوگی۔ پھر کسی خاص دور کے لئے نہیں بلکہ اخرجت للناس قیامت تک کے لوگوں کے لئے اصلاح ورہنمائی کا منصب اس امت کو سونپا گیا ہے۔ جس طرح آنحضورﷺ کافۃ للناس، قیامت تک کے لوگوں کے لئے رسول بنا کر بھیجے گئے ہیں۔ اس طرح یہ امت بھی تمام لوگوں کے لئے داعی الیٰ الخیر بنا کر کھڑی کی گئی ہے۔ پچھلے دور میں جو کام انبیاء کرام سرانجام دیا کرتے تھے۔ اب وہی کام امت مسلمہ سرانجام دے گی۔ دعوت الیٰ الخیر اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر انبیاء کرام کے ذریعے اﷲتعالیٰ نے جو نظام زندگی اور جو عقائد ونظریات اور جو قوانین سیاست عطاء فرمائے۔ جو ضابطۂ اخلاق اور جو اصول تہذیب ومعاشرت سکھائے۔ وہی خیر ہے۔ اﷲ کا دین خیر کل ہے اور اس کے علاوہ جو نظام زندگی اور جو قوانین معاشرت وسیاست رائج ہیں۔ وہ سب شر ہے۔ خیر میں نوع انسانی کی زندگی اس کا امن اور اس کے دونوں جہان کی بھلائی پوشیدہ ہے۔ شر میں اس کی تباہی اور دائمی رسوائی ہے۔ خدا اور رسول کے بتائے ہوئے اصول عبادت کے خلاف زندگی کے تمام طور طریقے منکر اور شر ہیں۔ جنہیں مٹا کر خیر کل اور دین حق کو قائم کرنا امت مسلمہ کا فریضہ ہے۔ اس کی کوششیں چند مذہبی رسوم وعبادات، محض اصلاح واخلاق کی تبلیغ یا صرف سیاسی انقلاب تک محدود نہیں ہوں گی۔ بلکہ وہ عالم اسلام کو دنیا کی ایسی عالمگیر طاقتور تحریک بنانے کی جدوجہد کرے گی۔ جس کے ذریعے سیاست واقتدار کی کنجیان جاہلیت کے ہاتھ سے چھین کر نظام حق کے قبضہ میں آجائیں۔ خیر کے لفظ میں پورا نظام عقائد اوعمال سمٹا ہوا ہے۔
الخیر اسلام کا دوسرا نام ہے۔ جو تمام معاملات کو خدا کی مرضی کے مطابق چلانے کی بنیاد ہے۔ حقوق اﷲ اور حقوق العباد کی ساری کائنات اس میں داخل ہے۔ ان میں محض کسی ایک حصہ کا