النبیین یعنی اﷲ نے آپﷺ پر نبوت ختم کر دی۔ اب نہ آپﷺ کے بعد کوئی نبی آئے گا نہ آپﷺ کے ساتھ کوئی اس میں شریک ہوگا۔ ’’وکان اﷲ بکل شییٔ علیما‘‘ یعنی یہ بات اﷲ کے علم میں ہے کہ آپﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں۔‘‘
علامہ ابن کثیرؒ (وفات ۷۷۴ھ) اپنی مشہور تفسیر میں لکھتے ہیں: ’’نبیﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں۔ جب آپﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں تو رسول کا درجہ تو بلند ہے۔ رسول کا منصب خاص ہے۔ نبی کا منصب عام۔ ہر نبی رسول نہیں ہوتا۔ حضورﷺ کے بعد جو شخص بھی اس مقام (نبوت) کا دعویٰ کرے وہ جھوٹا، مفتری، دجال، گمراہ اور گمراہ کرنے والا ہے۔ چاہے وہ کیسے ہی شعبدے، کرشمے، جادو اور طلسم بنا کر لے آئے… یہی حیثیت ہر اس شخص کی ہے جو قیامت تک اس منصب کا دعویٰ کرے۔‘‘
علامہ ابن نجیم (وفات۹۷۰ھ) لکھتے ہیں: ’’اگر آدمی یہ نہ سمجھے کہ محمدﷺ آخری نبی ہیں تو وہ مسلمان نہیں۔ کیونکہ یہ ان باتوں میں سے ہے جن کا جاننا اور ماننا دین کی ضروریات میں سے ہے۔‘‘
الغرض مسیلمہ کذاب اور اسود عنسی کے بعد بھی جس کسی نے نبوت ورسالت کا دعویٰ کیا امت محمدیہ کے علماء حق اور ائمہ عظام نے ان کا بھرپور تعاقب کیا اور ختم نبوت کا تحفظ کر کے ہر قسم کے فتنہ وفساد اور انتشار وتشتت سے ملت کو بچانے کا اپنا اہم فریضہ ادا کیا۔ جس کی وجہ سے آج بھی یہ امت دین واحد اسلام پر قائم ہے۔
قادیانی فریب کاریاں مرزاغلام احمد کو نبی قرار دینا دراصل اسلام کو منسوخ کرنے اور رسول اﷲﷺ کی نبوت کو ازکار رفتہ قرار دینے کے مترادف ہے۔ کیونکہ ختم نبوت کا عقیدہ اہل اسلام کا اجماعی اور بنیادی عقیدہ ہے۔ عہد نبوت سے لے کر آج تک ہر مسلمان اس بات پر ایمان رکھتا آیا ہے کہ حضرت محمد رسول اﷲﷺ بغیر کسی تخصیص وتاویل کے آخری نبی ہیں۔ آپﷺ کے بعد کسی کو منصب نبوت ورسالت عطاء نہیں ہوگا اور نہ ہی اس پر وحی نبوت نازل ہوسکتی ہے اور نہ ایسا الہام جو دین میں حجت ہو۔ امت کا سب سے پہلا اجماع اسی مسئلہ پر ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ آنحضرتﷺ کے بعد جب بھی کسی نے نبوت کا دعویٰ کیا اس کی گردن مار دی گئی۔ اسود عنسی ہو یا مسیلمہ کذاب، کسی سے یہ سوال نہیں کیاگیا کہ اس کی نبوت کیسی ہے؟ ظلی ہے یا بروزی، مستقل ہے یا غیر مستقل، تشریعی ہے یا غیرتشریعی اور نہ اس سے اس کی نبوت کے دلائل طلب کئے گئے۔ بلکہ مطلق نبوت کے اعلان