۷… ’’اب بجز محمدی نبوت کے سب نبوتیں بند ہیں۔ شریعت والا کوئی نبی نہیں آسکتا اور بغیر شریعت کے نبی ہوسکتا ہے۔ پس اس بناء پر میں امتی بھی ہوں اور نبی بھی۔‘‘
(تجلیات الٰہیہ ص۲۰، خزائن ج۲۰ ص۴۱۲)
جھوٹی نبوت ایک طرفہ تماشا
پچھلے دعوؤں کے ساتھ بطور نمونہ یہ بھی ملاحظہ فرمائیے۔ آخر ایک جھوٹے نبی کے منہ سے کوئی معقول اور سچی بات نکلے بھی کیونکر؟ جس کے متعلق آنحضورﷺ جھوٹا ہونے کی پیشین گوئی فرماچکے ہیں۔
۱… ’’میرے دعویٰ کے انکار کی وجہ سے کوئی شخص کافر نہیں ہوسکتا۔‘‘
(تریاق القلوب ص۱۳۰، خزائن ج۱۵ ص۴۳۲)
حقیقت الوحی میں لکھا تھا۔ میرے نام سے اگرچہ بے خبر ہی ہو، مجھ پر ایمان نہ لانے والا کافر ہو جائے گا۔ کون سی وحی،کون سا الہام اور کون سا دعویٰ سچا ہے۔ کوئی کسی وحی پر ایمان لائے۔ اگر کوئی پہلے ۳۶سالوں کی وحی پر ایمان لاتا ہے تو پچھلے پانچ سالوں کی وحی کے مطابق کافر قرار پاتا ہے اور پچھلے پانچ سالوں کی وحی تسلیم کرتا ہے تو مرزاقادیانی کی پہلی وحی غلط قرار پاتی ہے اور اس کے ماننے والے کافر ٹھہرتے ہیں۔ وحی بھیجنے والے کی شخصیت مشکوک ہے؟ یا وحی سمجھنے والے کی عقل کو تاہ، کفر سازی کی ان دو گھاٹیوں میں کسی کا قافیۂ حیات پھنس کر رہ جائے تو اس کی حالت پر افسوس تو ضرور ہوگا۔ لیکن اسی گھاٹیوں کو اڑائے بغیر امت مسلمہ کا ایمان خطرہ سے محفوظ بھی نہیں ہوسکتا۔
پھر یہ کتنی عجیب بات ہے کہ ۳۶ سال تک مرزاقادیانی کبھی مسیح موعود اور مجدد ومہدی کا دعویٰ کرتے رہتے ہیں اور خداتعالیٰ کی وحی انہیں ٹوکتی نہیں کہ یہ کیا کر رہے ہو۔ ہم نے تمہیں نبی بنایا ہے۔ تم اس سے کمتر حیثیت کا اعلان کر کے منصب نبوت کا وقار کیوں گھٹا رہے ہو؟ یا مرزاقادیانی اس عرصہ میں وحی کا مفہوم سمجھ نہ سکے۔ رحمن کی وحی اس قسم کے تضاد سے پاک ہوتی ہے۔ البتہ یہ اس دور کے عیار کی عیاری ہے اور شیطانی وحی کا تازہ نمونہ۔ بہرحال جھوٹی نبوت کے سامنے ایسی گھاٹیاں ضرور پیش آتی ہیں۔ جن میں پائے عقل ودانش لنگ ہو جاتا ہے۔ پہلی اور پچھلی وحی میں تفاوت شاید اسی وجہ سے پیدا ہوا ہو۔ آنحضورﷺ کے بعد سودائے نبوت کے جوش میں دماغی توازن تو کسی کا بھی برقرار نہیں رہا۔ تاریخ میں جتنے مدعیان نبوت کے حالات ملتے ہیں سبھی اختلال دماغ کے مریض اور سوداویت زدہ تھے۔ ان پر