ہزاروں میں ایک نبی
اجرائے نبوت کے سلسلہ میں پیش کی جانے والی مذکورہ آیات کی روشنی میں ۱۹۵۳ء میں جب پاکستان کی تحقیقاتی عدالت میں قادیانی پیشوا مرزامحمود سے سوال کیاگیا کہ آنحضرتﷺ کے بعد کتنے سچے نبی گزرے ہیں؟ تو جواب میں مرزامحمود نے کہا: ’’میں کسی کو نہیں جانتا مگر اس اعتبار سے کہ ہمارے نبی کریمﷺ کی حدیث کے مطابق آپﷺ کی امت تک میں آپ کی عظمت وشان کا انعکاس ہوتا ہے۔ سینکڑوں اور ہزاروں ہوچکے ہوں گے۔‘‘
(عدالت کا بیان)
مرزامحمود کے اس جواب کے پیش نظر ہم قادیانیوں سے دریافت کرتے ہیں کہ امت محمدیہ میں پیدا ہونے والے ہزاروں سچے نبیوں میں سے انہوں نے کتنوں کو مانا ہے؟ ظاہر ہے کہ ایک کو بھی نہیں اور یہ جاننے کی کوشش بھی نہیں کی کہ کس کس نے دعویٰ نبوت کیا ہے۔ ورنہ یہ نہ کہتے کہ: ’’میں کسی کو نہیں جانتا۔‘‘ جب قرآن کی رو سے اجرائے نبوت ثابت ہے اور یہ اقرار بھی ہے کہ ہزاروں انبیاء آچکے ہیں تو قادیانیوں نے ان پر ایمان لانا کیوں ضروری نہیں سمجھا؟
اہل اسلام بھی مانتے ہیں کہ خاتم النبیینﷺ کے بعد ہزاروں نے نبوت کا دعویٰ کیا۔ مگر وہ سب جھوٹے تھے۔ گویا مسلمانوں اور قادیانیوں میں فرق یہ ہے کہ وہ رسول اﷲﷺ کے بعد آنے والے ہزاروں نبیوں کو صادق اور سچے مانتے ہیں اور ہم ان ہزاروں کو کاذب اور دجال اور دوسرا فرق یہ ہے کہ ان ہزاروں میں سے قادیانیوں نے صرف ایک کو سچا مان لیا ہے اور مسلمان اس ایک کو بھی ان ہزاروں میں شمار کرتے ہیں۔ پاکستان کی تحقیقاتی عدالت میں جب مرزامحمود سے پوچھا گیا کہ آیا مرزاغلام احمد قادیانی کی نبوت اور دوسرے کئی دعوؤں پر ایمان لانا جزو ایمان ہے؟ تو صاف جواب دیا کہ مرزاقادیانی کے کسی دعویٰ پر ایمان لانا جزو ایمان نہیں ہے۔
اس سے صاف ظاہر ہوگیا کہ مرزامحمود اور ان کی قادیانی امت بھی مرزاقادیانی کو دل سے جھوٹا ہی سمجھتی ہے۔ کیونکہ اگر وہ سچے نبی ہوتے تو ان پر ایمان لانا یقینا جزو ایمان ہوتا۔
سلسلہ سے امت تک
جن لوگوں نے قادیانی لٹریچر کا مطالعہ کیا ہے ان پر یہ امر مخفی نہیں کہ ان کی تحریرات کا ایک خاص انداز ہے۔ جب وہ مسلمانوں کے کسی عقیدے کے خلاف کچھ کہنے میں ایک قدم آگے بڑھتے ہیں تو ان کی مخالفت کا احساس کرتے ہوئے دو قدم پیچھے لوٹ جاتے ہیں۔ تاکہ مسلمانوں کو