یہ جس قدر عوارض ہیں۔ اتنے ہی ان کے دعاوی ہیں۔ کبھی خود کو محدث سمجھتے کبھی مجدد، کہیں خود کو مہدی ظاہر کرتے اور کبھی مثیل مسیح، کبھی عیسیٰ بن مریم کا دعویٰ کرتے اور کبھی محمد عربیﷺ خود کو بتاتے۔ کبھی تمام انبیاء ورسل سے اعلیٰ وافضل سمجھتے اور کبھی انسانوں کی جائے نفرت وجائے عار ہونے کا دعویٰ کرتے۔
ان متضاد ومتخالف دعاوی کے ساتھ ساتھ متضاد حسب نسب اور نسل سے اپنا تعلق جوڑتے۔ چنانچہ مرزاقادیانی نے مدت العمر خود کو مغل ہی بتلایا۔ لیکن جیسا ہی دعویٰ تبدیل ہوا نسب بدل کر چینی الاصل ہونے کا دعویٰ کر دیا۔ پھر ایک دوسرا دعویٰ کر دیا تو خود کو آدھا یہودی اور آدھا اسماعیلی بتلایا۔ پھر کچھ عرصہ بعد دعویٰ تبدیل کر دیا تو ایرانی ہونے کا اعلان کر دیا۔ لیکن ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ میرے ایرانی (فارسی الاصل) ہونے کا میرے پاس کوئی ثبوت اور خاندانی ریکارڈ تو نہیں مگر مجھے وحی کے ذریعہ بتلایا گیا ہے۔ اس لئے میں مغل نہیں ہوں۔ پھر جب بعض احادیث ان کے دعاوی کے خلاف دکھائی دیں تو خود کو سید ظاہر کر دیا اور جب بابا نانک اور رودرگوپال ہونے کا دعویٰ کر دیا تو اپنے جاٹ (سکھوں کی ایک نسل) ہونے کا اعلان کرنا ضروری سمجھا۔
اس سے قارئین بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں کہ یہ شخص تضادات کا مجموعہ اور عوارض کا مارا ہوا ایک مجہول النسب شخص تھا۔ جس کو انگریزوں نے اپنے مفادات اور اغراض کی تکمیل کے لئے استعمال کیا تھا اور آج بھی کر رہے ہیں۔
دجال اور یاجوج ماجوج کے احسانات کا اعتراف ودعا
جب مرزاغلام احمد قادیانی نے عیسیٰ ابن مریم اور امام مہدی ہونے کا دعویٰ کر دیا تو علماء اسلام اور عامۃ المسلمین نے شدید مخالفت کی اور ان سے مطالبہ کیا کہ وہ دجال اور یاجوج ماجوج کی نشاندہی کریں۔ جن کے زمانہ میں عیسیٰ ابن مریم اور امام مہدی کو ظاہر ہونا تھا تو اپنے دعویٰ کے شدید ردعمل اور مخالفت سے گھبرا کر مغربی اقوام اور روس کی حکومتوں کو ہی دجال اور یاجوج ماجوج قرار دیا اور کہا کہ مذہبی اعتبار سے یہ قومیں دجال ہیں اور سیاسی اعتبار سے یاجوج ماجوج، مگر مرزاقادیانی کی اس چالاکی نے ان کو کوئی فائدہ نہیں پہنچایا اور مسلمانوں کو یقین ہوگیا کہ یہ شخص ہمیں دھوکہ دے رہا ہے۔ اس لئے کہ ایک طرف انگریزوں کو دجال اور یاجوج بھی کہہ رہا ہے اور دوسری طرف اسی دجال اور یاجوج کا وفادار اور شکرگزار بن کران کے اقبال وعروج اور ان کی فتوحات وغلبہ کے لئے دعا کی تلقین بھی کر رہا ہے۔ نہ صرف تلقین بلکہ ان کی شکرگزاری اور وفاداری کو فرض قرار دے رہا ہے۔ مندرجہ ذیل اقتباسات مرزا کے اس دجل کا ملمع اتارنے کے لئے کافی ہیں۔