۱… ’’انی جاعل فی الارض خلیفۃ (بقرہ:۴)‘‘ {میں زمین میں خلیفہ پیدا کرنے والا ہوں۔}
۲… ’’ان اﷲ اصطفیٰ آدم ونوحاً واٰل ابراہیم واٰل عمران علی العالمین (آل عمران:۴)‘‘ {اﷲ نے آدم اور نوح اور ال ابراہیم اور آل عمران کو تمام دنیا والوں پر ترجیح دے کر اپنی رسالت کے لئے منتخب کیا تھا۔}
مشکوٰۃ میں آیا ہے کہ جب آپﷺ سے دریافت کیاگیا کہ حضرت آدم علیہ السلام نبی تھے تو آپ نے فرمایا ’’نعم نبی تکلم‘‘ {خدا کے نبی تھے۔ خدا ان سے باتیں کرتا تھا۔}
ایک اور حدیث میں فرمایا: ’’اول الانبیاء آدم وآخرہم محمد (ابن عساکر، ابن حبان)‘‘ {سلسلۂ انبیاء کی ابتداء حضرت آدم علیہ السلام ہیں اور اس کی انتہاء حضرت محمدﷺ۔}
ادھر عالم انسانیت بتدریج پھیلتا رہا۔ ادھر قصر نبوت کی تعمیر ہوتی رہی۔ اس دوران دنیا میں انبیاء کرام مبعوث ہوتے رہے۔ قصر نبوت تکمیل کے مراحل طے کرتا رہا۔ آخر کار اس جہاں کے لئے جس عروج وکمال تک پہنچنا مقدر تھا پہنچ گیا۔ ادھر قصر نبوت بھی اپنے جملہ محاسن اور کمالات کے ساتھ مکمل ہوگیا۔
اجرائے رسالت کا پہلا اعلان
’’یا بنی آدم اما یاتینکم رسل منکم یقصون علیکم آیاتی فمن اتقٰی واصلح فلاخوف علیہم ولاہم یحزنون (اعراف:۴)‘‘ {اے نبی آدم جب بھی ہمارے پیغمبر تمہارے پاس آیا کریں اور ہماری آیتیں سنایا کریں تو ان پر ایمان لایا کرو۔ جو شخص ان پر ایمان لاکر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا۔ تو ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے۔} ابتدائے عالم میں رسولوں کی بعثت کی بشارت دی گئی تھی۔ ضروری تھا کہ اس کی انتہاء پر بھی سلسلۂ رسالت کے خاتمہ کا اعلان کر دیا جائے۔
ختم نبوت کا اعلان
اور اس آخری آسمانی کتاب میں یہ نہایت واضح اعلان بھی کر دیا گیا۔ ’’ماکان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول اﷲ وخاتم النبیین (احزاب:۴۰)‘‘ {محمدﷺ تمہارے مردوں میں سے کسی کے پاب نہیں ہیں۔ مگر وہ اﷲ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں۔}