جاری ہے۔ ان کو ذہن میں رکھ کر قادیانی امت کی ترجمانی کرنے والے مرزامحمود کی اس طبعی ومذہبی خواہش کا کیا نام رکھا جاسکتا ہے؟ اس کو میں قارئین پر چھوڑتا ہوں۔
’’جو گورنمنٹ (اسلام دشمن دجالی حکومت) ایسی مہربان ہو اس کی جس قدر بھی فرمانبرداری کی جائے تھوڑی ہے۔ ایک دفعہ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ اگر مجھ پر خلافت کا بوجھ نہ ہوتا تو میں مؤذن بنتا۔ اسی طرح میں کہتا ہوں کہ اگر میں خلیفہ نہ ہوتا تو والنٹیر (سپاہی) ہوکر جنگ یورپ میں چلا جاتا۔‘‘ (انوار خلافت ص۹۶)
قادیانیوں کو یہ وفاداری مبارک۔ ہم تو یہی یقین کرتے ہیں کہ مرزاقادیانی نے دجال اور یاجوج ماجوج کے لئے تعویذ کا کام کیا تھا تو آج ہر قادیانی اس کا وفادار سپاہی بن کر اسلام دشمنی کا پورا حق ادا کر رہا ہے۔
ہٹلر اور مسولینی بننے کی شدید آرزو
روایتی بگلا بھگت کی طرح قادیانی بظاہر بڑے نرم خو اور شیریں گفتار نظر آتے ہیں اور ان سے بات کرنے والا اس غلط فہمی میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ یہ دنیا کی اصلاح کی فکر میں گھلے جارہے ہیں اور دل سے چاہتے ہیں کہ لوگوں کی اصلاح نرمی اخلاق اور دعا سے کی جائے۔ مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ یہ اس لئے نرم نظر آتے اور جابجا اپنی مظلومیت کی دہائی دیتے پھر رہے ہیں کہ ان کو حکومت وغلبہ حاصل نہیں ہوا۔ لیکن اگر گنجے کو ناخن مل جائیں اور قادیانیوں کو خدانخواستہ کسی ملک میں حکومت حاصل ہو جائے تو اس ملک وعوام کا اور دیگر اہل مذاہب کا کیا نقشہ ہوگا۔ اس ایک اقتباس سے اس کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
’’حکومت ہمارے پاس نہیں کہ ہم جبر کے ساتھ ان لوگوں کی اصلاح کریں اور ہٹلر یا مسولینی کی طرح جو شخص ہمارے حکموں کی تعمیل نہ کرے اسے ملک سے نکال دیں اور جو ہماری باتیں سننے اور ان پر عمل کرنے پر تیار نہ ہو اسے عبرتناک سزا دیں۔ اگر حکومت ہمارے پاس ہوتی تو ہم ایک دن کے اندر اندر یہ کام کر لیتے۔‘‘ (الفضل قادیان مورخہ ۲؍جون ۱۹۳۶ئ، ج۲۳، نمبر۲۷۹)
حکومت حاصل نہ ہونے کے باوجود عام قادیانیوں کو اپنے ہٹلر اور مسولینی صفت آقاؤں اور بزرگان کے طریق اصلاح اور ان کی کرم فرمائیوں کا کافی تجربہ ہے۔ ہر قادیانی اپنے بزرگان کی حرکتوں پر گواہ ہے۔ خدا کرے کہ قادیانیوں کی آنکھیں کھلیں اور حقائق کو سمجھنے کی توفیق ملے۔