پروردگار عالم نے تو نبوت کا دروازہ بند کر کے آنحضورﷺ کے ذریعہ اس کا اعلان بھی کرادیا۔ لیکن شیطان نے جھوٹے نبیوں اور گندی روحوں پر وحی کا سلسلہ بند نہیں کیا۔
۱… ’’ہل انبئکم علیٰ من تنزل الشیاطین تنزل علیٰ کل افاک اثیم (الشعرائ)‘‘ {اچھا میں تمہیں بتاؤں کہ شیطان کس پر اترتے ہیں۔ وہ ہر جھوٹے گنہگار پر اترتے ہیں۔}
۲… ’’وان الشیاطین لیوحون الیٰ اولیاء ہم لیجادلوکم (انعام:۱۴)‘‘ {اور شیطان اپنے رفیقوں کے دلوں میں یہ بات ڈالتے ہیں کہ تم سے (ناحق) جھگڑا کریں۔}
اس لئے تمام جھوٹے مدعی نبوت اپنے کام کا آغاز خوابوں سے کرتے ہیں اور شیطان کے تصرف سے جو خواب آتے ہیں۔ انہیں حلم کہا جاتا ہے۔ اس کی جمع احلام ہے۔ انہیں اضغاث احلام کہا جاتا ہے اور یہی ان کا مبدأ وحی ہوتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ مفتری اور کذاب لوگوں پر شیطان کی وحی کا سلسلہ جاری ہے۔ تاکہ دنیا میں وہ خیر کے مقابلہ میں فتنہ وشر کا وجود قائم رکھیں۔
جھوٹی نبوت جاری ہے
حضور اکرمﷺ نے فرمایا: ’’انہ سیکون فی امتی کذابون ثلاثون کلہم یزعم انہ نبی وانا خاتم النبیین لا نبی بعدی (ترمذی ج۲ ص۴۵)‘‘ {میرے بعد عنقریب میری امت میں سے ایسے تیس سخت جھوٹے پیدا ہوں گے جن میں ہر ایک اپنے متعلق یہی گمان کرے گا کہ وہ نبی ہے۔ حالانکہ میں سب نبیوں کے آخر میں آیا ہوں اور مجھ پر سلسلہ نبوت ختم ہوگیا۔} حضورﷺ کی اس پیش گوئی کے مطابق آپﷺ کے بعد ہر مدعی نبوت کاذب اور فریب کار ہے اور پھر ایسے لوگ مسلمان قوم ہی سے اٹھیں گے۔ کسی غیرمسلم طبقہ سے نبوت کا دعویٰ کرنے والے کے دھوکہ میں کون آسکتا ہے۔ یہ کام تو مسلمانوں کا نقاب اوڑھ کر ہی کیا جاسکتا ہے۔
نئی نبوت کی ضرورت کب پیش آتی ہے
اب علمی اور عقلی دلائل کی روشنی میں اس مسئلہ پر غور ضروری ہے کہ دنیا میں وہ کیا حالات واسباب ہیں۔ جن کی بناء پر کسی نبی کی بعثت ضروری ہوجاتی ہے۔ مولانا مودودی نے تفہیم القرآن میں مفصل بحث کی ہے۔ چنانچہ وہ فرماتے ہیں۔
’’قرآن مجید سے جب ہم یہ معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ نبی کے بعد تقرر کی ضرورت کن کن حالات میں پیش آتی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ صرف چار حالتیں ایسی ہیں جن میں انبیاء مبعوث ہوتے ہیں۔