اجرائے نبوت کے متعلق جماعت احمدیہ کا پہلا پرچہ
سامعین کرام! آج اجرائے نبوت کے مسئلے پر فریقین میں بحث شروع ہورہی ہے۔ جماعت احمدیہ یہ عقیدہ رکھتی ہے کہ حضرت محمد عربیﷺ کی امت میں جہاں یہ مقدر تھا کہ اس میں بگاڑ پیدا ہو جائے گا اور عام کمزوریاں اور خرابیاں راہ پا جائیں گی۔ وہاں یہ بھی مقدر تھا کہ اس زمانے میں آنحضرتﷺ کا ہی ایک غلام حضورﷺ کے انوار اور فیضان سے مشرف ہوکر اصلاح امت کا بیڑہ اٹھائے اور اسلام کو تمام دنیا کے مذاہب پر علمی اور روحانی اعتبار سے فوقیت بخشے۔ چنانچہ ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ حضرت محمد عربیﷺ کا وہ موعود غلام قادیان کی بستی میں پیدا ہوا اور اس نے اپنا فرض بطور احسن ادا کیا۔
اس کے مقابل پر ہمارے دوسرے مسلمان بھائی اپنی کم فہمی کی وجہ سے یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ امت تو حضرت محمد رسول اﷲﷺ کی ضرور بگڑے گی۔ لیکن امت محمدیہ کے تمام مسلمان چونکہ ایسے نااہل ہوں گے کہ ان میں سے کوئی بھی اصلاح کا کام نہیں کر سکے گا۔ اس لئے ایک سابقہ اسرائیلی نبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام دوبارہ نازل ہوں گے اور مسلمانوں کی اصلاح کریں گے۔
مقام غیرت ہے کہ امت تو بگڑے حضرت محمد عربیﷺ کی اور اصلاح کرنے کے لئے آئیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام۔ غور کا مقام ہے کہ ہمارے مسلمان بھائیوں نے کس قدر غلط عقیدے اپنا لئے ہیں۔ ان کے دلوں اور دماغوں میں صرف عیسیٰ ہی عیسیٰ بسے رچے ہوئے ہیں۔ کبھی انہیں چوتھے آسمان پر بٹھایا جاتا ہے۔ کبھی خدائی صفات سے متصف قرار دیا جاتا ہے۔ کبھی یہ کہا جاتا ہے کہ وہ دوبارہ دنیا میں نازل ہوں گے۔
لیکن حقیقت کیا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ اس زمانے میں آنحضرتﷺ کی امت میں سے ہی آپؐ کے ایک غلام کا اصلاح امت کے لئے مبعوث ہونا مقدر تھا۔ جو ظاہر ہوچکا۔ ہمارے غیراحمدی بھائی اگر مطلق موت کے انکاری ہوتے تو ایک بات بھی تھی۔ لیکن غضب تو یہ ہے کہ ان کے نزدیک آنحضرتﷺ کے بعد اسرائیلی نبی تو آسکتا ہے مگر محمدیؐ نبی نہیں آسکتا۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے ؎مریم کے جگر گوشہ کے آنے پہ نبوت
ہم آپ کی مانیں گے گر اس وقت رہی بند