متعین ہو جانے میں ہے۔
غیرمسلم اقلیت قرار پانے سے انکار کیوں؟
پچھلے صفحات میں خود مرزاقادیانی کے اعلان اور دعوؤں سے یہ ثابت کیاجاچکا ہے کہ نئی نبوت ایک نئی امت کے ساتھ برصغیر میں نمودار ہوئی ہے اور بقول ان کے ان کا اسلام، خدا، رسول اور ان کے تمام افکار وعقائد مسلمانوں سے الگ ہیں۔ ان سے سماجی اور معاشرتی تعلقات بالکل منقطع ہیں۔ بلکہ مسلمانوں کے مقابلہ میں ان کے ہاں انگریز انہیں ہر درجہ محبوب ہیں اور ان کی وفاداری واطاعت اور محبت وخلوص کے مستحق ہیں۔ اس طرح انہوں نے اپنی روحانی برادری سے رشتہ جوڑلیا ہے۔
مسلمانوں کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دیتے ہیں۔ ان کی عورتوں کو کتیوں کے نام سے خطاب کرتے ہیں۔ مسلمانوں کو قزاق، چور اور حرامی بھی تصور کرتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود اپنے آپ کو انہیں میں شمار کرانا چاہتے ہیں اورمسلمان قوم کے مفادات سے بھی حصہ مارنا چاہتے ہیں اور ان میں گھسے رہنے پر اصرار بھی کرتے ہیں۔ عقل ودیانت کے نزدیک ان کا یہ رویہ کہاں تک مبنی برانصاف ہوسکتا ہے؟ یہ آئندہ وقت بتائے گا۔
برطانیہ کی جاسوسی، جھوٹے نبی کا حقیقی مشن تھا
انگریز کی غلامی سے چھٹکارا پانے اور مسلمان قوم کو ظالم اور خونخوار حکومت کے پنجہ سے چھڑانے کے لئے علماء اور عوام میں سے جو افراد بھی جدوجہد کر رہے تھے اور انگریزوں کے خلاف باغیانہ جذبات رکھتے تھے۔ ان کی مکمل فہرست لکھ کر قادیانی امت حکومت برطانیہ کو مہیا کرتی رہی ہے۔
۱… ’’قرین مصلحت ہے کہ سرکار انگریزی کی خیرخواہی کے لئے ایسے نافہم مسلمانوں کے نام بھی نقشہ جات میں درج کئے جائیں جو درپردہ اپنے دلوں میں برٹش انڈیا کو دارالحرب سمجھتے ہیں اور ہم امید کرتے ہیں کہ ہماری گورنمنٹ ان نقشوں کو مکمل راز کی طرح اپنے کس دفتر میں محفوظ رکھے گی۔ ایسے لوگوں کے نام اور پتہ یہ ہیں۔‘‘ (تبلیغ رسالت ج۵ ص۱۱، مجموعہ اشتہارات ج۲ ص۲۲۷)
دنیا کی نظروں میں قادیانیوں کا مشن، انگریز کے ایجنٹ
۱… ’’دنیا ہمیں انگریزوں کا ایجنٹ سمجھتی ہے۔ چنانچہ جب جرمنی میں احمدیہ عمارت کے افتتاح کی تقریب میں ایک جرمن وزیر نے شمولیت کی تو حکومت نے اس سے جواب طلب کیا کہ کیوں تم ایسی جماعت کی کسی تقریب میں شامل ہوئے جو انگریزوں کی ایجنٹ ہے۔‘‘
(الفضل مورخہ یکم؍نومبر ۱۹۳۴، ج۲۲ نمبر۵۴، ص۱۲)