نئی نبوت کس لئے
اس کے بعد مولانا مودودی تحریر فرماتے ہیں۔ ’’اب ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ وہ پانچویں وجہ کون سی ہے۔ جس کے لئے آپﷺ کے بعد ایک نبی کی ضرورت ہو۔ اگر کوئی کہے کہ قوم بگڑ گئی ہے۔ اس کی اصلاح کے لئے ایک نبی کی ضرورت ہے تو ہم اس سے پوچھیں گے کہ محض اصلاح کے لئے دنیا میں نبی کب آیا ہے؟ کہ آج صرف اس کام کے لئے وہ آئے۔ نبی تو اس لئے مقرر ہوتا ہے کہ اس پر وحی کی جائے اور وحی کی ضرورت یا تو کوئی نیا پیغام دینے کے لئے ہوتی ہے یا پچھلے پیغام کی تکمیل کے لئے، یا اس کو تحریفات سے پاک کرنے کے لئے۔ قرآن اور سنت محمد مصطفیﷺ کے محفوظ ہو جانے اور دین کے مکمل ہو جانے کے بعد وحی کی سب ضرورتیں ختم ہوچکی ہیں تو اب اصلاح کے لئے صرف مصلحین کی حاجت باقی ہے نہ کہ انبیاء کی‘‘ (تفہیم القرآن ج۴ ص۱۵۲) چنانچہ اس امر کی تائید مندرجہ ذیل حدیث سے بھی ہوتی ہے۔ ’’عن النبیﷺ قال کانت بنو اسرائیل تسوسہم الانبیاء کلما ہلک نبی خلفہ نبی وانہ لا نبی بعدی وسیکون خلفاء (بخاری ج۱ ص۴۹۱، احمد ابن ماجہ، ابن جریر)‘‘ آنحضرتﷺ نے فرمایا بنی اسرائیل کی قیادت خود ان کے انبیاء فرمایا کرتے تھے۔ جب ایک نبی کی وفات ہو جاتی تو دوسرا اس کا جانشین آجاتا۔ لیکن میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ ہاں خلفاء ہوں گے۔ جن خدمات کے لئے پہلے انبیاء کرام بھیجے جاتے تھے۔ سلسلۂ نبوت ختم ہونے کے بعد آئندہ یہی خدمات امت کے علمائ، خلفاء اور اولوالامر سرانجام دیں گے اور اگر آئندہ یہ سلسلہ ختم نہ ہوتا تو بدستور انبیاء کی بعثت ہوتی رہتی۔ لیکن امت کی اصلاح وتجدید کا کام علماء اور خلفاء کے حوالے کرنے کا مقصد ہی ختم نبوت کا اعلان ہے۔ ایک نیک نیت اور سلیم الفطرت انسان کے سمجھنے کے لئے یہ حقیقت کتنی شفاف اور واضح ہے۔ لیکن نبی بننے کا جنون دماغ پر سوار ہو تو پھر تحریف تدلیس کے رندے سے جھوٹی نبوت کا بت تراشنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ مزید تفصیل آگے آرہی ہے۔
قصر نبوت کی تعمیر اور اس کی خشت اوّل
خالق کائنات نے جب ایک طرف اس جہان کی بنیاد رکھی تو اس کے ساتھ ساتھ قصر نبوت کی پہلی اینٹ بھی رکھ دی۔ یعنی اس عالم کون ومکان میں جس کو اپنا خلیفہ بنایا تھا۔ اس کو قصر نبوت کی خشت اوّل بھی قرار دیا گیا۔ نوع آدم کا ابتدائی پیکر اور پہلے نبی یعنی حضرت آدم علیہ السلام دونوں حیثیتوں کے مالک ہیں۔