جن لوگوں کا یہ خیال ہے کہ بحالت اضافت خاتم کے معنی صرف افضل کے آتے ہیں۔ انہیں چاہئے تھا کہ اپنے اس دعوے کے ثبوت میں کسی امام فن کا قول پیش کرتے۔ جس میں صراحۃً یہ مذکور ہوتا کہ جمع کی طرف مضاف ہونے کی حالت میں خاتم کے معنی صرف افضل کے ہوتے ہیں ؎
یقولون اقوالا ولا یعلمونہا
ولو قیل ہا لو حققوا لم یحققوا
ختم نبوت
’’الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی (المائدہ:۳)‘‘
حضرات! میرے لئے جو مضمون تجویز کیاگیا ہے۔ اس کی عظمت اس امر کی متقاضی تھی اور ہے، کہ کوئی عظیم الشان صاحب علم اس پر تقرر کرتا۔ لیکن میں اپنے محدود علم کی بناء پر جس قدر کہہ سکتا ہوں، کہوںگا۔ مضمون ہے۔ ’’ختم نبوت‘‘ جو مسلمانوں میں بہت سمجھا جارہا ہے۔ اوّل اس لئے کہ مسلمان کہلانے والوں میں سے ایک جماعت ختم نبوت کی بجائے اجرائے نبوت کی قائل ہے۔ دوسرے اس وجہ سے کہ ایک جدید تعلیم یافتہ طبقہ اپنی آزادی کی بناء پر ختم نبوت کا منکر اور اجرائے نبوت کا مؤید ہے اور کہتا ہے کہ اخلاق انسان کی اصلاح کے لئے نبی کی برابر ضرورت ہے۔
لفظ نبی کی لغوی تحقیق
نبی، نبو، نبا۔ یہ تین لفظ ہیں۔ جن سے نبوت کا لفظ ماخوذ ہے۔ ازروئے لغت نبی بروزن فعیل کا مفہوم ہے۔ اطلاع دینے والا، اطلاع پہنچانے والا۔ پس اطلاع دینے کا نام بھی نبوت، اطلاع پہنچانا بھی نبوت۔ قرآن کریم کے الفاظ اس بات کے گواہ ہیں۔ آپ نے پہلے پارہ میں پڑھا ہوگا کہ ’’انبئونی‘‘ بتادو مجھے۔ اطلاع دو مجھے۔ ’’ذالک من انباء الغیب (آل عمران:۴۴)‘‘ یہ غیبی اطلاعات ہیں۔ ’’من انباک ہذا (التحریم:۳)‘‘ تمہیں یہ بات کس نے بتائی۔ جواب دیا گیا کہ مجھے بے انتہاء علم والے نے یہ بات بتائی۔ کوئی بات بتا دینا۔ کوئی عظیم الشان بات بتا دینا، یا کسی کو پہنچا دینا اس کا نام لغت میں نبوت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ علمائے کرام نے تسلیم کیا ہے کہ لفظ نبوت شرعاً منقول ہے۔ (شرع مواقف ص۲۶۳) لغوی معنوں میں جو وسعت ہے وہ شرعی معنوں میں نہیں۔