ان کا مذہب قبول کیا تھا یا نہ دیکھ کر۔ خیر اگر نہیں دیکھ کر کیا تھا تو ان دو تین حوالوں کو سردست ملتوی رکھ کر باقی جو حوالے مرزاقادیانی کے میں نے دئیے ہیں۔ ان تمام کو تو آپ نے آتومیٹک ہی صحیح تسلیم کر لیا۔ اب آپ ہی کہیں کہ مرزاقادیانی اپنی کتابوں کے حوالے سے آخری نبی آپ کے لئے ہوئے یا نہیں۔
مرزاقادیانی کی ایک آخری تحریر پیش کرتا ہوں۔ ’’تمام مسلمانوں کی خدمت میں گزارش ہے کہ اس عاجز کے رسالے فتح اسلام، توضیح المرام، ازالہ اولام میں جس قدر ایسے الفاظ موجود ہیں کہ محدث ایک معنی میں نبی ہوتا ہے یا یہ کہ محدثیت جزوی نبوت ہے یا یہ کہ محدثیت نبوت ناقصہ ہے۔ یہ تمام الفاظ حقیقی معنوں میں محمول نہیں ہیں۔ بلکہ صرف سادگی سے ان کے لغوی معنوں کی روسے بیان کئے گئے ہیں۔ ورنہ حاشا وکلا (قسم سخت۔ اسماعیل) مجھے نبوت حقیقی کا دعویٰ نہیں ہے۔ بلکہ جیسا کہ میں کتاب (ازالہ اوہام ص۷۶۱، خزائن ج۳ ص۵۱۱) میں لکھ چکا ہوں۔ میرا اس بات پر ایمان ہے کہ ہمارے سید ومولا محمد مصطفیٰﷺ ’’خاتم الانبیائ‘‘ ہیں۔ سو میں تمام مسلمان بھائیوں کی خدمت میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ اگر وہ ان لفظوں سے ناراض ہیں اور ان کے دلوں پر یہ الفاظ شاق ہیں تو وہ ان الفاظ کو ترمیم شدہ تصور فرما کر بجائے اس کے محدث کا لفظ میری طرف سے سمجھ لیں۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات ج۱ ص۳۱۳)
اے اﷲ کے بندو! اﷲ کے لئے سوچو کہ مرزاقادیانی نے کتنا کھلا فیصلہ فرمادیا کہ میں جہاں بھی نبی کہا ہوں وہاں محدث سمجھو۔ پھر تضاد بیانی بھی ملاحظہ ہو۔ یعنی میں نے آخری نور خاتم الولد وغیرہ سے ثابت کر دیا ہے کہ مرزا ادھر محدث بنتے ہیں۔ ادھر آخری نبی، ان دونوں میں سے کسی ایک کو مانو۔ اجرائے نبوت کو نہیں۔
(شرح دستخط) احقر محمد اسماعیل عفی عنہ
۲۴؍نومبر ۱۹۶۳ء
M
مسئلہ اجرائے نبوت پر جماعت احمدیہ کا چوتھا پرچہ
یہ ایک سنت الٰہی اور قانون قدرت ہے کہ جب زمین کے سوتے خشک ہونے لگتے ہیں تو دنیا ایک بے چینی اور اضطراب کے ساتھ آسمان کی طرف نگاہ اٹھاتی ہے۔ آخر جب باران