اور ان کے مقتدر لیڈر علماء امت کے تعاون سے اپنا مطالبہ دہرارہے ہیں کہ اگر اس فرقہ کی اسلام دشمن حرکات اور ان کی خفیہ سازشوں کا فوری نوٹس نہ لیا گیا۔ تو پھر نہ معلوم اس فتنہ پر قابو پانا کس قدر مشکل ہو جائے گا۔ قوم کے پیٹ میں اس گھسی ہوئی مکھی کو نکالے بغیر ملی صحت کا معیار برقرار رکھا نہیں جاسکتا اور نہ الگ الگ نبیوں کی امت میں باہم کوئی قدر مشترک باقی رہ جاتی ہے۔
خدا کرے کہ اس بار حکومت دانشمندی کا ثبوت دیتے ہوئے مسلمان قوم کے متفقہ اور دیرینہ مطالبہ کو منظور کر لے اور اس طرح وہ عوام اور خدا دونوں کے ہاں سرخروئی حاصل کر سکے اور اسی بات میں دونوں کی بھلائی بھی ہے۔ ضرورت ہے کہ اس انتہائی اہم مسئلہ پر نہایت سنجیدگی کے ساتھ کوئی ایسا فیصلہ کیا جائے جو عتاب الٰہی سے ہمیں بچا سکے۔ ورنہ جھوٹی نبوت جس کشتی میں سوار ہوگی وہ کشتی بدامنی وفساد کے بھنور سے کبھی نکل نہیں سکتی اور نہ ایشیائی اسرائیل کی ریشہ دوانیوں سے یہاں مسلمانوں کو امن چین مل سکتا ہے۔
نئی نبوت متنازعہ فیہ مسئلہ نہیں ہے
کہ مسلمانوں کے دو گروہوں میں کوئی اختلاف ہے۔ بلکہ یہ معاملہ کفر اور اسلام کا ہے۔ یا دو نبیوں کی دو امتوں کا ہے۔ امت محمدیہ کا عقیدہ ہے کہ آنحضورﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا اور مرزائی امت نے اس کے خلاف ایک جھوٹا نبی کھڑا بھی کر دیا۔ اس کے بعد دونوں کے بنیادی عقیدہ کے اختلاف کی بناء پر کفر اور اسلام کی کشمکش شروع ہوگئی۔
حضورﷺ کے زمانے میں مسیلمہ کذاب نے نبوت کا دعویٰ کیا تو اسے مرتد ہو جانے کی بناء پر قتل کر دیا گیا۔ یہی حشر، عنسی کذاب کا بھی ہوا، اس کے خلاف کوئی آواز نہ اٹھنے کا مطلب یہ ہے کہ جھوٹی نبوت کا دعویٰ کرنے والا اسلامی ریاست میں ناقابل برداشت اور مباح الدم ہے اور یہ کہ کفر وارتداد کی تبلیغ واشاعت کی آزادی ایک اسلامی معاشرے میں نہیں دی جاسکتی۔ انگریزی دور میں علماء کرام نے اس جھوٹی نبوت کا بہترین پوسٹ مارٹم کیاتھا اور مرزاقادیانی کے جسمانی، دماغی، علمی اور اخلاقی پہلوؤں پر واضح دلائل کے ساتھ روشنی ڈالی تھی۔ لیکن لادینی نظام کی آبیاری سے یہ اکاس بیل برابر پھیلتی رہی اور مسلمان قوم کی رگ وجان سے برابر خون چوستی رہی اور آج اس آفت جان سے چھٹکارا پانا ایک مستقل خطرہ بن گیا ہے۔
قرآن وحدیث میں ختم نبوت کا مسئلہ اس وضاحت سے بیان کیاگیا ہے کہ اس میں کبھی دو رائیں نہیں ہوئیں اور نہ اس میں کسی اجتہاد واستنباط کی گنجائش نکل سکتی ہے۔ نزول قرآن سے لے کر آج تک یہ مسئلہ متفق علیہ ہی رہا ہے۔