ختم نبوت کی حقیقت
تمام قوموں کی مذہبی اور تاریخی روایات متفق ہیں کہ نوع انسان کی ابتداء ایک ہی انسان سے ہوئی اور انسانوں کی موجودہ نسلی دنیا میں جہاں کہیں پائی جاتی ہے وہ اس آدم کی اولاد ہے جو اس سلسلہ کی کڑیوں میں سے ایک ممتاز کڑی ہے۔ جس کے ساتھ ایک نیا دور شروع ہوا اور جس کی جسمانی تشکیل اس حد تک ہوچکی تھی کہ وہ اﷲتعالیٰ کی وحی کے حامل ہونے کے قابل تھا۔ اﷲتعالیٰ نے اس کے ذریعہ سے قصر نبوت کی بنیاد رکھی اور اسے اپنے کلام اور وحی کا شرف عطاء فرمایا۔ جیسا کہ آیت: ’’فتلقی اٰدم من ربہ کلمت فتاب علیہ (البقرہ:۳۷)‘‘ {یعنی پھر آدم نے اپنے رب سے چند کلمات سیکھ لئے۔} شاہد ہے۔
جب آدم پر وحی کے نزول کا ذکر فرمایا تو بنی آدم کے لئے بھی قانون بتا دیا کہ ہر ایک انسان یا بنی آدم پر وحی کا نزول نہیں ہوگا۔ بلکہ ضرورت کے وقت موزوں اور منتخب انسانوں پر اﷲتعالیٰ کی طرف سے ہدایت ورسالت آجایا کرے گی۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’یا بنی آدم امایاتینکم رسل منکم یقصون علیکم اٰیاتی فمن اتقٰی واصلح فلا خوف علیہم ولاہم یحزنون (الاعراف:۳۵)‘‘ {اے بنی آدم اگر کبھی تمہارے پاس تم میں سے رسول آئیں، میری آیات تم پر بیان کریں تو جو کوئی تقویٰ کرے اور اصلاح کر لے ان پر کوئی خوف نہیں اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔}
ابتداء میں بنی نوع انسان کے لئے اصول زندگی بالکل سادہ اور تعلیم نہایت آسان تھی۔ کیونکہ انسان ابھی تمدن کی پیچیدگیوں میں مبتلا نہ ہوا تھا اور اس کی زندگی کے تمام معاملات نہایت سادہ تھے اور سب کی زندگی ایک ہی طرح کی تھی اور سب اپنی قدرتی سادگی پر قانع تھے۔ پھر رفتہ رفتہ انسان دنیا کے مختلف حصوں میں پھیل گئے اور مختلف قومیں بن گئیں۔ بعض لوگ اپنے باپ حضرت آدم علیہ السلام کے طریقہ پر چلتے رہے اور مرور زمانہ کی وجہ سے کئی ایسے بھی تھے جنہوں نے اپنے آبائی طریقے کو چھوڑ دیا اور اپنی خواہشات کی پیروی کی۔ حتیٰ کہ نسل انسانی کی کثرت اور ضروریات معیشت کی وسعت سے طرح طرح کے اختلافات پیدا ہو گئے اور اختلافات نے تفرقہ وانقطاع اور ظلم وفساد کی صورت اختیار کر لی۔ ہر گروہ دوسرے گروہ سے نفرت