ایک فقرہ بھی نہیں ملے گا۔ ہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام صرف ایک عظیم الشان نبی کا نام لے کر دنیا کو بشارت دیتے ہیں کہ میرے بعد صرف ایک مبعوث ہوگا۔ جس کا اسم گرامی احمد ہوگا۔ (ﷺ) جیسے ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’واذ قال عیسیٰ ابن مریم یبنی اسرائیل انی رسول اﷲ الیکم مصدقالما بین یدی من التورٰۃ ومبشراً برسول یأتی من بعد اسمہ احمد (الصف:۶)‘‘ {اور جب عیسیٰ ابن مریم نے کہا اے بنی اسرائیل میں تمہاری طرف اﷲ کا رسول ہوں۔ اس کی تصدیق کرتا ہوا جو میرے سامنے تورات سے اور ایک رسول کی خوشخبری دیتا ہوا جو میرے بعد آئے گا اس کا نام احمد ہے۔}
آخر وہ وقت آیا جب نفوس انسانی مختلف انبیاء کی تعلیم سے اس قابل ہوچکے تھے کہ اب وہ آخری اور جامع تعلیم پائیں اور اپنے انتہائی کمال کو پہنچیں اور اس قصر نبوت کی تکمیل ہو جس کی بناء حضرت آدم صفی اﷲ نے ڈالی تھی۔ اب تقریباً حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت کو چھ سوسال گزرے تھے کہ ؎
ہوئی پہلوئے آمنہ سے ہویدا
دعائے خلیل اور نوید مسیحا
اس عظیم الشان رسولؐ نے مبعوث ہوتے ہی دنیا کو ان الفاظ سے خطاب فرمایا: ’’یایہا الناس انی رسول اﷲ الیکم جمیعاً (الاعراف:۱۵۸)‘‘ {اے لوگو! میں تم سب کی طرف اﷲ کا رسول ہوں۔}
ختم نبوت ازروئے قرآن مجید
اس نبوت کو جس کی ابتداء حضرت آدم علیہ السلام سے ہوئی۔ قرآن کریم نے حضرت محمد مصطفیٰﷺ پر ان الفاظ میں اس کو ختم کر دیا۔
’’ماکان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول اﷲ وخاتم النبیین وکان اﷲ بکل شیٔ علیما (الاحزاب:۴۰)‘‘ {محمد(ﷺ) تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں۔ لیکن اﷲ کے رسول اور نبیوں کے ختم کرنے والے ہیں اور اﷲ ہرچیز کو جاننے والا ہے۔}
دنیا میں انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کی جو غرض تھی وہ محمد رسول اﷲﷺ کی مقدس ومطہر ذات میں اپنے کمال کو پہنچ کر پوری ہوگئی اور جب غرض پوری ہوگئی تو اس کے بعد کسی نبی کے