علامات چسپاں ہوں۔ مگر میں ان ہزاروں میں صرف اس ایک صدی کے لئے مہدی ومسیح ہوں۔ لیکن رفتہ رفتہ اپنی تحریرات کے کمال سے اپنے ماننے والوں کے ذہن میں یہ بات بٹھا دی کہ اب قیامت تک کوئی مہدی ومسیح نہیں آئے گا۔ غرض کہ ان کی تحریرات کے اس تضاد اور گرگٹ صفت انداز تحریر کا مقصد سوائے اس کے اور کیا ہوسکتا تھا کہ ایک طرف اہل اسلام کی مخالفت کا جوش ٹھنڈا ہوتا رہے اور دوسری طرف اپنے زیراثر لوگوں کو آہستہ آہستہ ہر قسم کے دعویٰ حتیٰ کہ مرزاقادیانی کو تشریعی نبی ماننے پر بھی آمادہ کیا جاسکے۔ اس ترکیب سے انہوں نے اپنے ہزاروں مریدوں پر گویا ایک لحاظ سے سحر کر دیا اور اپنے مقصد میں ایک حد تک کامیاب بھی ہوگئے تھے۔ مگر اب علماء اسلام کی کامیاب مساعی کے نتیجہ میں ان کا یہ سحر ٹوٹ چکا ہے۔
قادیانی رسول کی گندہ زبانی
خدا کا نبی معصوم ہوتا ہے۔ اس کی زبان پاک ہوتی ہے۔ گندہ زبانی سے اس کو طبعاً نفرت ہوتی ہے۔ وہ کبھی پست خیالی پر مبنی عامیانہ اور بازاری انداز تخاطب کا ارادہ بھی نہیں کرتا۔ اس کے برعکس قادیانی رسول کی زبان انسانی تہذیب وشرافت کی تمام حدود کو پھلانگ کر اپنے نہ ماننے والوں کو جس انداز میں مطعون کرتی ہے۔ اس کے ایک ایک لفظ پر جبین انسانیت عرق آلود اور چشم غیرت اشکبار اور شرم وحیا نوحہ کناں ہوتی ہے۔ یہی وہ زبان ہے جس سے قارئین مرزاقادیانی کے ’’اخلاق عالیہ‘‘ کا بآسانی اندازہ کر سکتے ہیں۔ چنانچہ مسلمان علماء کرام پر زبان درازی کرتے ہوئے مرزاقادیانی لکھتے ہیں: ’’اے ظالم مولویو! تم پر افسوس کہ تم نے جس بے ایمانی کا پیالہ پیا وہی عوام کالانعام کو پلایا۔‘‘ (انجام آتھم ص۲۱، خزائن ج۱۱ ص۲۱ حاشیہ)
’’اے مردار خور مولویو! اے گندی روحو، اے اندھیرے کے کیڑو۔ یہ مولوی جھوٹے ہیں اور کتوں کی طرح مردار کا گوشت کھاتے ہیں۔‘‘
(ضمیمہ انجام آتھم ص۲۱، خزائن ج۱۱ ص۳۰۵ حاشیہ)
’’اے بے ایمانو، نیم عیسائیو، دجال کے ہمراہیو، اسلام کے دشمنو، تمہاری ایسی تیسی۔‘‘
(اشتہار انعامی تین ہزار ص۵، مجموعہ اشتہارات ج۲ ص۶۹ حاشیہ ملخص)
مولانا سعد اﷲ لدھیانویؒ کے بارے میں مرزاقادیانی لکھتے ہیں: ’’سعد اﷲ لدھیانوی بے وقوفوں کا نطفہ اور کنجری کا بیٹا ہے… خداتعالیٰ نے اس کی بیوی کے رحم پر مہرلگادی ہے۔‘‘
(تتمہ حقیقت الوحی ص۱۳،۱۴، خزائن ج۲۲ ص۴۴۴،۴۴۵)
’’اگر تو نرمی کرے گا تو میں بھی نرمی کروں گا۔ اگر تو گالی دے گا تو میں بھی گالی دوں گا۔