شکر ہے کہ گویا کافرق رہ گیا۔ (مؤلف)
۱۱… ’’اس تمام تمہید کا مدعا یہ ہے کہ گورنمنٹ کو یاد رہے کہ ہم تہہ دل سے اس کے شکرگزار ہیں اور ہمہ تن اس کی خیرخواہی میں مصروف۔‘‘ (شہادت القرآن ص۸۶، خزائن ج۶ ص۳۸۲)
۱۲… ’’میں کہہ سکتا ہوں کہ میں اس گورنمنٹ کے بطور ایک تعویذ کے ہوںجو آفتوں سے بچائے۔‘‘ (نور الحق ص۳۳، خزائن ج۸ ص۴۵)
۱۳… ’’آپ (مرزاقادیانی) کے ساتھ انگریزوں کا نرمی کے ساتھ ہاتھ تھا۔‘‘ (تذکرہ)
(بھلا خود کاشتہ پودے پر کوئی سختی کا ہاتھ رکھ سکتا ہے۔ مؤلف)
۱۴… ’’ہم نے جو اس گورنمنٹ کے زیرسایہ آرام پایا اور پارہے ہیں وہ آرام ہم کسی اسلامی گورنمنٹ میں بھی نہیں پاسکتے۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۵۰۹، خزائن ج۳ ص۳۷۳)
ہرگز نہیں پاسکتے۔ اسلامی حکومت کا مزہ تو کابل میں چکھ چکے ہیں۔ مؤلف
۱۵… ’’دنیا ہمیں انگریزوں کا ایجنٹ سمجھتی ہے۔‘‘ (الفضل قادیان مورخہ یکم؍نومبر ۱۹۳۴ئ)
(اور درست سمجھتی ہے)
۱۶… ’’حضرت مسیح موعود (مرزاقادیانی) نے فخریہ لکھا ہے کہ میری کوئی کتاب ایسی نہیں جس میں میں نے گورنمنٹ کی تائید نہ کی ہو۔ مگر مجھے افسوس ہے کہ میں نے غیروں سے نہیں بلکہ احمدیوں (قادیانیوں) کو یہ کہتا سنا ہے کہ ہمیں مسیح موعود کی ایسی تحریر پڑھ کر شرم آتی ہے۔ انہیں شرم کیوں آتی ہے۔ اس لئے کہ ان کی اندر کی آنکھ نہیں کھلی۔‘‘ (الفضل قادیان مورخہ ۷؍جولائی ۱۹۳۲ئ) فرزند سعادت مند اسے کہتے ہیں۔ اگر بیٹا باپ کا رمز شناس نہ ہو تو وہ بیٹا ہی کیا۔ بھلا دوسرے قادیانی کو اس رمز سے آگاہی کیسے ہو۔ اسی لئے وہ بیچارے نابینا ہیں۔ اس باب میں زیادہ وضاحت قرین مصلحت نہیں۔ ناظرین خود ہی مرزاقادیانی کے کارناموں کی تصویر کے دونوں رخ دیکھ لیں۔ ہائے افسوس ؎
کس لئے آئے تھے اور کیا کر چلے
تہمتیں چند اپنے ذمہ دھر چلے
عیش وعشرت
مرزاقادیانی (آئینہ کمالات اسلام ص۵۵، خزائن ج۵ ص ایضاً) پر فرماتے ہیں ؎
منہ دل در تنعمہائے دنیا گر خدا خواہی
کہ می خواہد نگار من تہی دستان عشرت را