مطابق انسانی زندگی میں آپﷺ نے حل کر کے دکھادئیے۔ آج جہاں کہیں اور جس قدر بھی اخلاق وعمل میں کوئی حسن نظر آتا ہے۔ نیکی اور بھلائی کی جس قدر روشنی ہے وہ اﷲتعالیٰ کے بھیجے ہوئے اسی سراج منیر کی نورانی شعاعوں کے طفیل ہے۔ رضائے الٰہی کی چلتی پھرتی مقدس اور نورانی سیرت نے انسانی زندگی کا کوئی گوشہ تاریکی میں نہیں چھوڑا۔ اگر آپﷺ کے بعد کسی نبی کی آمد ہوتی تو پھر تمام نوع انسانی کو اور قیامت تک کے لوگوں کے لئے آپﷺ کے اسوۂ حسنہ کو بطور نمونہ پیش نہ کیا جاتا اور نہ آپﷺ کی حیثیت سراج منیر کی رہتی۔ اس طرح آپﷺ کا فیض نبوت صرف اپنے دور کے لئے ہی محدود ہوکر رہ جاتا۔ آخر اس اسوہ حسنہ کے بعد مزید کسی اسوہ کی کیا ضرورت باقی رہ جاتی ہے؟ جس کے لئے کسی نبی کی ضرورت ہو۔ بصورت دوم تسلیم کرنا پڑے گا کہ آپﷺ کا اسوۂ وعمل نامکمل رہ گیا ہے اور اب یہ رہنمائی وہدایت کے لئے ناکافی ہے۔ آخر مرزاغلام احمد قادیانی نے سیرت واخلاق کا کون سا بہتر نمونہ پیش کیا ہے؟ انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے نجات دلانے کے لئے اس کی کیا خدمات ہیں۔ اجتماعی وسیاسی زندگی میں اس نے کون سا اسلامی انقلاب برپا کیا؟ اگر ایسا کوئی ریکارڈ پیش بھی کیا جاتا جب بھی کسی شخص کے نبی بننے کی دلیل نہ بن سکتا۔ کیونکہ نبیوں کا انتخاب کرنے اور اس کی ضرورت محسوس کرنے والے نے آئندہ ہمیشہ کے لئے یہ سلسلہ لپیٹ دیا ہے۔ اب اگر غیرسرکاری اور جعلی نبی لوگوں کو دھوکہ وفریب کا شکار بنانا چاہتے ہیں تو بھی دیدۂ بینا رکھنے والوں سے یہ لوگ چھپ نہیں سکتے۔ اسلامی شعور اور ملّی غیرت کی موجودگی میں ناموس رسالت پر ہاتھ ڈالنے والے اپنے ناپاک منصوبوں میں کامیاب نہیں ہو سکتے اور اسوہ حسنہ کی موجودگی میں انسان رہنمائی وہدایت کے لئے ہر طرف سے بے نیاز ہو جاتا ہے۔
آپﷺ کی رسالت قیامت تک کے لوگوں کے لئے کافی ہے
۱… ’’قل یا یہا الناس انی رسول اﷲ الیکم جمیعاً (اعراف:۲۰)‘‘ اے لوگو! میں تم سب کے لئے اﷲ کی طرف سے رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ اس آیت میں اعلان کیا جارہا ہے کہ اس وقت کے لوگوں کے لئے ہی نہیں بلکہ قیامت تک آنے والے لوگوں کے لئے اور تمام اہل زمین کے لئے آپؐ کی نبوت کا آفتاب ہمیشہ روشن رہے گا اور زمانہ کی گردش سے اس آفتاب ہدایت کی روشنی میں قطعاً کوئی کمی نہیں آئے گی۔ آفتاب کے بعد اگر ستارے بھی ہوں تو بے نور ہو کر غائب ہو جاتے ہیں۔ پھر شراروں کی کیا اہمیت رہ جاتی ہے۔