فرض ہے۔‘‘ (الفضل قادیان مورخہ ۲۸؍دسمبر ۱۹۲۵ئ)
قادیانی سیاست کا حقیقی نصب العین یہ ہے کہ کسی طرح ایک خالصتہً قادیانی ریاست وجود میں لائی جائے۔ چنانچہ یہی خلیفہ صاحب اپنی ایک تقریر میں اس نصب العین پر ان الفاظ میں روشنی ڈالتے ہیں۔
’’ہم میں سے ہر ایک احمدی یہ یقین رکھتا ہے کہ تھوڑے عرصہ کے اندر ہی (خواہ ہم اس وقت تک زندہ رہیں یا نہ رہیں۔ لیکن بہرحال وہ عرصہ غیرمعمولی طور پر لمبا نہیں ہوسکتا) ہمیں تمام دنیا پر نہ صرف عملی برتری حاصل ہوگی۔ بلکہ سیاسی اور مذہبی برتری بھی حاصل ہو جائے گی… جب ہمارے سامنے بعض حکام آتے ہیں تو ہم اس یقین اور وثوق کے ساتھ ان سے ملاقات کرتے ہیں کہ کل یہ نہایت عجزوانکسار کے ساتھ ہم سے استمداد کر رہے ہوں گے۔‘‘
(الفضل قادیان مورخہ ۲؍اکتوبر ۱۹۳۹ئ)
اس نصب العین کے حصول کے لئے جو طریق کار اختیار کیاگیا وہ یہ تھا: ’’میرا خیال ہے کہ ہم حکومت سے صحیح تعاون کر کے جس قدر جلد حکومت پر قابض ہوسکتے ہیں عدم تعاون سے نہیں۔‘‘
ان اقتباسات سے یہ بات اچھی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ قادیانیت دراصل ایک سیاسی تحریک ہے اور اس نے اپنے مخصوص سیاسی عزائم پر مذہبیت کا پردہ ڈال رکھا ہے۔
انگریز اور قادیانی
ملت اسلامیہ ایک ایسی زندگی اور جاندار ملت ہے کہ اگر اس کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے جائیں اور اس کی اجتماعیت کا شیرازہ منتشر کر کے سیاسی اعتبار سے اگر اسے بجبر مغلوب بھی کر لیا جائے۔ تب بھی مرتی اور مٹتی نہیں۔ بلکہ ظلم اور استبداد کے جانکاہ چرکے سہہ کر بھی یہ ابھرتی ہے اور جب ابھرتی ہے تو اس کی تازگی اور توانائی اور اس کی جاذبیت اور کشش میں کوئی فرق واقع نہیں ہوتا۔ چنگیزیت کی مستبدانہ گرفت میں پھنس کر بھی اس کا مقابلہ کرتی ہے۔ اس کی روح ہرگز شکست تسلیم نہیں کرتی۔ اس کا اجتماعی ضمیر ہر حال میں زندہ اور توانا رہتا ہے اور اس کی فولادی خودی ہمیشہ ناقابل تسخیر رہتی ہے۔
ملت اسلامیہ کی اسی قوت اور توانائی کے حقیقی سرچشمے صرف دو ہی ہیں۔ ان میں ایک قرآن اور اس کا تصور جہاد ہے اور دوسرے آنحضرتﷺ کی دائمی اور ابدی نبوت اور