مرزاصاحب فرماتے ہیں: ’’ہم اس بات پر ایمان لاتے ہیں کہ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں اور سیدنا حضرت محمد مصطفیٰﷺ اس کے رسول اور خاتم الانبیاء ہیں اور ہم ایمان لاتے ہیں کہ ملائک حق اور حشر اجساد حق اور روز حساب حق اور جنت حق اور جہنم حق ہیں اور ہم ایمان لاتے ہیں کہ جو کچھ اﷲ جل شانہ نے قرآن شریف میں فرمایا ہے اور جو کچھ ہمارے نبیﷺ نے فرمایا ہے وہ سب بلحاظ بیان مذکورۂ بالا حق ہے اور ہم ایمان لاتے ہیں کہ جو شخص اس شریعت اسلام میں سے ایک ذرہ کم کرے یا ایک ذرہ زیادہ کرے یا ترک فرائض یا اباحت کی بنیاد ڈالے وہ بے ایمان اور اسلام سے برگشتہ ہے اور ہم اپنی جماعت کو نصیحت کرتے ہیں کہ وہ سچے دل سے اس کلمہ طیبہ پر ایمان رکھیں کہ: ’’لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ‘‘ اور اسی پر مریں اور تمام انبیاء اور تمام کتابیں جن کی سچائی قرآن شریف سے ثابت ہے۔ ان سب پر ایمان لاویں اور صوم اور صلوٰۃ اور زکوٰۃ اور حج اور خدا تعالیٰ اور اس کے رسولؐ کے مقرر کردہ تمام فرائض کو فرائض سمجھ کر اور تمام منہیات کو منہیات سمجھ کر ٹھیک ٹھیک اسلام پر کاربند ہوں۔ غرض وہ تمام امور جن پر سلف صالح کو اعتقادی اور عملی طور پر اجماع تھا اور وہ امور جو اہل سنت کی اجماعی رائے سے اسلام کہتے ہیں۔ ان سب کا ماننا فرض ہے اور ہم آسمان اور زمین کو اس بات پر گواہ کرتے ہیں کہ یہی ہمارا مذہب ہے اور جو شخص مخالف اس مذہب کے کوئی اور الزام ہم پر لگاتا ہے وہ جھوٹا ہے۔‘‘ (ایام الصلح ص۹۵،۹۶)
(شرح دستخط) محمد سلیم عفی عنہ
مورخہ ۲۴؍نومبر ۱۹۶۳ء
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ ہو الناصر!
صداقت حضرت مسیح موعود (مرزا) کے مسئلہ پر جماعت احمدیہ کا پہلا پرچہ
سامعین کرام! حضرت بانی ٔ جماعت احمدیہ حضرت مرزاغلام احمد قادیانی کی صداقت کے متعلق جماعت احمدیہ کا پہلا پرچہ ہے۔ آج سے تقریباً اسی سال قبل مسلمانان عالم پر ایک جمود طاری تھا۔ ان کے عقائد میں ایک فتور برپا تھا۔ بے عملی اور بے حسی نے ان کے اعضاء وقوی کو مضمحل اور یکسر مفلوج کر دیا تھا۔ ان کے دل خلوص سے خالی تھے اور ان میں تعلیم کا وجود برائے نام رہ گیا تھا۔ اسلام کا صرف نام اور قرآن کی صرف رسم رہ گئی تھی۔ مسجدیں ویران اور مرثیہ خواں تھیں۔
مسلمانوں کی اس بے عملی اور جمود کو دیکھ کر اغیار کے حوصلے بڑھ گئے اور یہ سمجھ کر کہ