آپﷺ نے فرمایا کہ قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک کہ تیس جھوٹے اور دجال نہ نکل آئیں۔ جن میں مسیلمہ عنسی اور مختار بھی ہیں۔
احادیث میں دجالوں کے تیس عدد میں کیا حکمت ہے۔ اس کے متعلق حافظ ابن حجرؓ لکھتے ہیں: ’’ولیس المراد بالحدیث من ادعیٰ النبوۃ مطلقاً فانہم لا یحصون لکون غالبہم ینشاء لہم ذالک من جنون وسوداء وانما المراد من قامت لہ الشوکۃ (فتح الباری)‘‘ حدیث مذکور میں مدعیان نبوت سے ہر مدعی نبوت مراد نہیں۔ کیونکہ مدعی نبوت تو بے شمار ہیں۔ اکثر ان دعوؤں کا جوش، جنون یا سوداویت کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ یہاں مراد وہ مدعی نبوت ہیں جو صاحب شوکت ہوں گے۔ (ان کا مذہب تسلیم کیا جائے گا۔ ان کے پیروکاروں کی تعداد بھی زیادہ ہوگی) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کذب وافتراء اور دجل وفریب کو مادی اسباب ووسائل کے ساتھ کسی حد تک ترقی ووسعت کی آزادی ہے۔ اصحاب خیر کا امتحان ہے کہ وہ کس قدر جلدی اس کی سرکوبی کرتے اور اس کی سرعت رفتار کو روکنے کی سعی وجہد کرتے ہیں۔ اگر شرکا وجود ختم ہو جائے تو خیر کی آزمائش کیوں کرہو؟
خاتم النبیین آپ کی خصوصی فضیلت
قرآن میں اﷲتعالیٰ نے آپﷺ کو رسول اﷲ کے ساتھ ساتھ خاتم النبیین کا اعزاز بھی بخشا ہے۔ جو کسی دوسرے پیغمبر کو نہیں ملا اور خاتم النبیین کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اگر آپﷺ تشریف نہ لاتے تو شائد اور افراد کو نبوت مل جاتی۔ بلکہ صحیح مطلب یہ ہے کہ سلسلۂ انبیاء علیہم السلام میں آپﷺ سب سے آخری نبی ہیں۔ اس لئے آپﷺ کی آمد ہی اس وقت ہوئی۔ جب کہ انبیاء علیہم السلام کا ایک ایک فرد آچکا۔ اس لئے آپﷺ کی آمد نے نبوت کا منصب بند نہیں کیا۔ بلکہ جب پروردگار عالم کی مشیت میں نبوت ختم ہوگئی تو اس کی آخری دلیل بن کر آپﷺ مبعوث ہوئے۔ اس معنی میں ہی آپﷺ کو خاتم النبیین کہاگیا ہے۔ اگر علم ازلی میں مزید کچھ افراد کے لئے نبوت مقدر ہوتی اور دنیاکی عمر کچھ اس سے اور دراز ہوتی تو یقینا آپﷺ کی آمد کا زمانہ بھی ابھی اور مؤخر ہو جاتا۔ آپﷺ کا لقب خاتم النبیین اسی وقت واقع کے مطابق ہوسکتا ہے جب کہ آپﷺ کے بعد کوئی نبی نہ آئے۔ اگر آپﷺ کے بعد بھی کوئی نبی آتا ہے تو پھر آپﷺ آخری نبی کس طرح ہوئے؟ بلکہ اس طرح آپﷺ درمیانی نبی قرار پائیں گے۔ لیکن مرزائی کس طرح دھوکہ دیتے ہیں کہ ہم بھی آنحضورﷺ کو خاتم النبیین مانتے ہیں۔ لیکن اس کے بعد نیا