اور بظاہر یزید نے فتح پائی۔ قرآن کی اصطلاح میں اس قسم کا فروغ اور ترقی، فلاح وکامیابی نہیں ہے۔ بلکہ اﷲتعالیٰ کے نزدیک فلاح پانے والے کامیاب اور حیات طیبہ کے مالک وہ لوگ ہیں جنہوں نے دنیا میں اﷲ کا کلمہ بلند کرنے کی نیکی اور بھلائی کا سکہ چلانے اور باطل کو شکست دینے کے لئے زندگی کی تمام صلاحیتیں نچوڑ کر رکھ دیں۔ خواہ دنیوی لحاظ سے ان کی حالت کیسی ہی کمزور ہو۔ مرزائیوں کے مقابلہ میں تو عیسائی مشنریاں دنیا میں زیادہ پھیلی ہوئی ہیں۔ اگر یہی معیار حق وصداقت اور معراج کامیابی ہے تو ان کے مقابلے میں عیسائی بہت کامیاب ہیں اور اسی طرح کئی اور باطل نظریات اور بے دین تحریکیں بھی اﷲ تعالیٰ کے قانون امہال واستدراج کے تحت پھلتی پھولتی نظر آتی ہیں۔ لیکن اﷲتعالیٰ کے ہاں مقبولیت اور کامیابی کا جو معیار ہے وہ انہیں حاصل نہیں ہوسکتا۔ وہ تو صرف دین حق کی وفاداری میں مل سکتا ہے۔ لہٰذا مرزائی امت کی چمک دمک، باشعور اور غیور مسلمانوں کو ہرگز دھوکہ نہیں دے سکتی۔
خدا اور رسول کے غدار مسلمانوں کے وفادار نہیں ہوسکتے
مرزائی اسلام کا نقاب اوڑھ کر انگریزی دور میں مرتد سازی اور فریب کاری کا کام آزادی سے سرانجام دے رہے تھے۔ اس وقت مسلمان مجبور تھے۔ جھوٹی نبوت کی اکاس بیل ملت اسلامیہ سے لپٹتی اور اس کا رس چوستی رہی۔ مگر آزادی کے بعد ۲۷سال تک قہر الٰہی کو جوش میں لانے والی اس لعنت کو برداشت کرتے رہنا ملک وملت کے لئے ایک سانحہ تھا۔ پھر ایسے خائن اور مسلمان دشمن لوگوں کو نظام مملکت میں اہم ذمہ داریاں سونپنا انہیں راز دار بنانا قومی خود کشی کے مترادف ہے۔ جن کے نبی کا بنیادی کردار قرآن کے الفاظ ومعنی میں ردوبدل اور خیانت وبددیانتی ہو۔ ایسے ظالم شخص کے پیروکار اور خدا ورسول کی امانت میں خیانت کرنے والے لوگ مسلمان عوام کے اجتماعی اور سیاسی حقوق کے بارے میں امین اور معتمد کیسے ثابت ہوسکتے ہیں؟ ہرگز نہیں۔ بزبان خود مسلمانوں کو اپنا بدترین دشمن تصور کرنے والے اور ہر باطل اور ظالم نظام کی رکاب تھامنے والے، امت مسلمہ کے وفادار اور خیرخواہ ہرگز نہیں ہوسکتے۔ کیونکہ اختلاف نبوت نے وفاداری وتعاون کا مرکز ہی بدل کر رکھ دئیے اور انہیں غیر مسلم قرار دینے کے بعد مملکت اسلامیہ کے نظم ونسق اور اس کے اہم شعبوں میں انہیں بحال رکھنا ملک وملت کے لئے بہت بڑا خطرہ ہے۔ ممکن ہے قومی اسمبلی کے صحیح فیصلہ کے بعد اس فرقہ کے کئی افراد اپنی جاسوسانہ فطرت کے تحت کوئی مغالطہ آمیز پوزیشن اختیار کر لیں۔ اس صورت میں بھی ان کے کردار پر کڑی نگاہ رہنی چاہئے۔