یہ اعلان اس لئے کیاگیا کہ سابق معمول کے مطابق آئندہ کسی شخص کو کسی رسول کا انتظار نہ کرنا پڑے۔ اس اعلان کے مطابق دنیا میں جتنے رسول آئے۔ کسی نے خاتم النبیین کا دعویٰ نہیں کیا۔ بلکہ اپنے بعد آنے والے رسول کی بشارت سنائی۔ آنحضورﷺ نے دنیا میں تشریف لاکر نبوت کے ساتھ ایک نیا اعلان (ختم نبوت) بھی فرمایا اور اس امر کا انکشاف کیا کہ اس دنیا کا بھی یہ آخری دور ہے اور میں بھی اس زمین پر آخری رسول ہوں اور اپنے ہاتھ کی دو انگلیوں کے ساتھ اشارہ کر کے فرمایا: ’’بعثت انا والساعۃ کہاتین (بخاری ج۲ ص۹۶۳)‘‘میرے زمانہ نبوت اور قیامت کے درمیان اور کوئی نبوت مائل نہیں ہے۔ جس طرح کہ ہاتھ کی ان دو انگلیوں کے درمیان کوئی چیز حائل نہیں ہے۔
آنحضورﷺ کی زبانی ختم نبوت کی تمثیلات
ایک مسلمان کے لئے تو خدا ورسول کا کسی معاملے میں صاف صاف اعلان مطمئن کرنے کے لئے کافی ہے۔ لیکن رحمتہ اللعالمین نے انسانی ذہن کی سادگی اور کمزوری کو مدنظر رکھتے ہوئے ختم نبوت کے مسئلہ کو انتہائی سہل اور مؤثر پیرائے میں اس طرح بیان فرمایا تاکہ آئندہ کسی سوراخ سے کوئی کذاب داخل نہ ہوسکے۔
’’قال النبیﷺ ان مثلی ومثل الانبیاء من قبلی کمثل رجل بنیٰ بیتاً فاحسنہ واجملہ الّا موضع لبنۃ من زاویۃ فجعل الناس یطوفون بہ ویعجبون لہ ویقولون ہلّا وضعت ہذہ اللبنۃ فانا اللبنۃ وانا خاتم النبیین (بخاری ج۱ ص۵۰۱، باب خاتم النبیین)‘‘ {نبیﷺ نے فرمایا۔ میری اور مجھ سے پہلے گذرے ہوئے انبیاء کی مثال ایسی ہے جیسے کہ ایک شخص نے ایک عمارت بنائی اور نہایت ہی خوبصورت بنائی۔ مگر ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ خالی چھوڑی ہوئی تھی۔ لوگ اس عمارت کے گرد پھرتے اور اس کی خوبی پر اظہار حیرت کرتے تھے۔ مگر کہتے تھے کہ اس جگہ اینٹ کیوں نہ رکھی گئی اور وہ اینٹ میں ہوں اور میں خاتم النبیین ہوں۔} (یعنی میرے آنے پر نبوت کی عمارت مکمل ہوچکی ہے۔ اب کوئی جگہ نہیں رہی جسے پر کرنے کے لئے کوئی نیا نبی آئے) نبوت کا محل مکمل ہو جانے کے بعد آخر اس کی دیوار کے ساتھ کسی نئے نبی کے لٹکے رہنے کا کوئی فائدہ؟ غور طلب بات ہے۔
اس مضمون کی حدیثیںصحیح مسلم، ترمذی اور مسند احمد میں بھی آئی ہیں۔ اختصار کے خیال