لگاتے ہیں۔ اس سے مقصد یہ ہوتا ہے کہ کھیت کی حفاظت کی جائے۔ اس سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ مرزاقادیانی کا الہام کنندہ اتنا کمزور ہے کہ اسے اپنی حفاظت کے لئے مرزاقادیانی سے حفاظت کرانے کی ضرورت محسوس ہورہی ہے اور یہ الہام کنندہ مرزاقادیانی کی طرح ڈرپوک اور کمزوردل ہوگا۔ ’’ہمارا رحمن ورحیم خدا تو قادر مطلق ہے۔‘‘
مرزاقادیانی کا الہام
’’انی مع الاسباب اٰتیک بغتۃ انی مع الرسول اجیب اخطی واصیب‘‘ میں اسباب کے ساتھ اچانک تیرے پاس آؤں گا۔ خطا کروں گا اور بھلائی کروں گا۔
(البشریٰ ج۲ ص۷۹)
مرزائیو! تمہارے گورو کا الہام کنندہ کہہ رہا ہے کہ میں خطا کروں گا۔ کیا خدائے واحد وقدس بھی خطا کیا کرتا ہے؟ اس الہام سے معلوم ہوتا ہے کہ مرزاقادیانی جو خطاؤں اور اجتہادی غلطیوں کے جال میں۔ ساری عمر پھنسا رہا۔ یہ دراصل اس کا اپنا قصور نہیں۔ بلکہ اس کے الہام کنندہ کا چلن ہی ایسا تھا کہ وہ خود بھی خطاؤں نسیان کے چکر سے باہر نہ تھا۔ اسی لئے تو مرزاقادیانی کو تمام عمر اس گورکھ دھندے میں پھانسے رکھا۔ سچ ہے ؎
مامریدان روبسوئے کعبہ چوں آریم چوں
رخ بسوئے خانہ خمار دارد پیرما
مرزاقادیانی کو الہام ہوا ہے: ’’اصلی واصوم اسہرو انام‘‘ میں نماز پڑھوں گا اور روزہ رکھوں گا، جاگتا ہوں اور سوتا ہوں۔ (البشریٰ ج۲ ص۷۹)
قرآن مجید میں اﷲتبارک وتعالیٰ کے متعلق ارشاد ہے۔ ’’لا تاخذہ سنۃ ولا نوم‘‘ نہ اﷲتعالیٰ پر اونگھ غالب آتی ہے نہ نیند۔ لیکن مرزاقادیانی کو الہام ہو رہا ہے کہ میں جاگتا ہوں اور سوتا ہوں۔ اب یہ مرزائیوں کا فرض ہے کہ وہ دنیا کے سامنے اعلان کر دیں کہ ان دونوں میں سے کس نظرئیے کو صحیح سمجھتے ہیں؟
مرزاقادیانی لکھتا ہے: ’’ایک دفعہ تمثیلی طور پر مجھے خداتعالیٰ کی زیارت ہوئی اور میں نے اپنے ہاتھ سے کئی پیش گوئیاں لکھیں۔ جن کا مطلب یہ تھا کہ ایسے واقعات ہونے چاہئیں۔ تب میں نے وہ کاغذ دستخط کرانے کے لئے خداتعالیٰ کے سامنے پیش کیا اور اﷲتعالیٰ نے بغیر کسی تأمل کے سرخی کی قلم سے اس پر دستخط کئے اور دستخط کرنے کے وقت قلم کو چھڑکا۔ جیسا کہ جب قلم پر زیادہ سیاہی آجاتی ہے تو اسی طرح پر جھاڑ دیتے ہیں اور پھر دستخط کردئیے اور میرے پر اس وقت