اعبدوا اﷲ واتقوہ (العنکبوت:۱۶)‘‘ {اور ابراہیم علیہ السلام کو (بھیجا) جب اس نے اپنی قوم سے کہا اﷲ کی عبادت کرو اور اس کا تقویٰ کرو۔}
پھر نبوت کے سلسلے کو جاری رکھتے ہوئے فرمایا: ’’ووہبنالہ اسحقق ویعقوب وجعلنا فی ذریتہ النبوۃ والکتٰب (العنکبوت:۲۷)‘‘ {اور ہم نے اسحق اور یعقوب عطاء کئے اور ہم نے اس کی اولاد میں نبوت اور کتاب جاری کی۔}
پھر ایک اور مقام پر فرمایا: ’’ولقد ارسلنا نوحاً وابراہیم وجعلنا فی ذریتہما النبوۃ والکتب (الحدید:۲۶)‘‘ {اور ہم نے نوح اور ابراہیم کو بھیجا اور ان کی نسل میں نبوت اور کتاب کے سلسلے کو جاری رکھا۔}
غرض قوموں کی اصلاح کے لئے وقتاً فوقتاً انبیاء مبعوث ہوتے رہے اور وحی نبوت کا سلسلہ جاری رہا۔ حتیٰ کہ موسیٰ علیہ السلام کا زمانہ آگیا۔
’’ولقد اٰتینا موسیٰ الکتٰب وفقینا من بعدہ بالرسل (البقرہ:۸۷)‘‘ {اور یقینا ہم نے موسیٰ کو کتاب دی اور اس کے بعد ہم نے پے در پے رسول بھیجے۔}
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد تقریباً چودہ سو سال تک مختلف ملکوں اور قوموں کی طرف انبیاء آتے رہے۔ تاکہ ہر قوم کو الگ الگ تعلیم وہدایت دیں۔ آہستہ آہستہ غلط خیالات کو مٹا کر صحیح خیالات پھیلائیں۔ یہاں تک کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا زمانہ آگیا۔ ’’وقفینا بعیسیٰ ابن مریم واٰتینہ الانجیل ویعلمہ الکتب والحکمۃ والتورٰۃ والانجیل ورسولاً الیٰ بنی اسرائیل (آل عمران:۲۷)‘‘ {اور سب سے پیچھے عیسیٰ ابن مریم کو بھیجا اور اسے انجیل دی اور وہ اسے کتاب اور حکمت اور تورات اور انجیل سکھائے گا اور وہ بنی اسرائیل کی طرف رسول ہوگا۔}
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد صرف ایک رسولؐ کی بشارت
مندرجہ بالا آیات سے آپ نے بخوبی سمجھ لیا ہوگا کہ حضرت نوح علیہ السلام حضرت ابراہیم اور حضرت موسیٰ علیہم السلام جیسے اولوالعزم پیغمبروں کے بعد انبیاء ورسل کا جو سلسلہ جاری وساری رہا اور انبیاء آتے رہے۔ قرآن مجید نے اسے کہیں ’’ثم ارسلنا رسلنا تتراً‘‘ اور کہیں ’’وقفینا من بعدہ بالرسل‘‘ کے فقرات سے واضح کیا ہے۔ لیکن آپ سارا قرآن مجید پڑھ جائیں اور بنظر عمیق اس کا مطالعہ کریں آپ کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد اس قسم کا