۴…
چہارم یہ کہ ایک نبی کے ساتھ اس کی مدد کے لئے ایک اور نبی کی حاجت ہو۔ اب یہ ظاہر ہے کہ ان میں سے کوئی ضرورت بھی نبیﷺ کے بعد باقی نہیں رہی ہے۔
قرآن خود کہہ رہا ہے کہ حضورﷺ کو تمام دنیا کی ہدایت کے لئے مبعوث فرمایا گیا ہے اور دنیا کی تمدنی تاریخ بتارہی ہے کہ آپﷺ کی بعثت کے وقت سے مسلسل ایسے حالات موجود رہے ہیں کہ آپﷺ کی دعوت سب قوموں کو پہنچ سکتی تھی اور ہر وقت پہنچ سکتی ہے۔ اس کے بعد الگ الگ قوموں میں انبیاء آنے کی کوئی حاجت باقی نہیں رہتی۔ قرآن مجید اس بات پر بھی گواہ ہے اور اس کے ساتھ حدیث وسیرت کا پورا ذخیرہ اس امر کی شہادت دے رہا ہے کہ حضورﷺ کی لائی ہوئی تعلیم بالکل اپنی صحیح صورت میں محفوظ ہے۔ اس میں مسخ وتحریف کا کوئی عمل نہیں ہوا ہے۔ جو کتاب آپﷺ لائے تھے اس میں ایک لفظ کی کمی وبیشی آج تک نہیں ہوئی۔ نہ قیامت تک ہوسکتی ہے۔ جو ہدایت آپﷺ نے اپنے قول وعمل سے دی اس کے تمام آثار آج بھی اس طرح ہمیں مل جاتے ہیں کہ گویا ہم آپﷺ کے زمانے میں موجود ہیں۔ اس لئے دوسری ضرورت بھی ختم ہوگئی۔ پھر قرآن مجید یہ بات بھی صاف صاف کہتا ہے کہ حضورﷺ کے ذریعہ سے دین کی تکمیل کر دی گئی ہے۔ لہٰذا تکمیل دین کے لئے بھی اب کوئی نبی درکار نہیں۔
اب رہ جاتی ہے چوتھی ضرورت، تو اگر اس کے لئے نبی درکار ہوتا تو وہ حضورﷺ کے زمانے میں آپﷺ کے ساتھ مقرر کیا جاتا۔ ظاہر ہے کہ جب وہ مقرر نہیں کیاگیا تو یہ وجہ بھی ساقط ہوگئی۔ اب ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ وہ پانچویں وجہ کون سی ہے؟ جس کے لئے آپﷺ کے بعد ایک ہی نبی کی ضرورت ہو؟ اگر کوئی کہے کہ قوم بگڑ گئی ہے اس لئے اصلاح کی خاطر ایک نبی کی ضرورت ہے تو ہم اس سے پوچھیں گے کہ محض اصلاح کے لئے نبی دنیا میں کب آیا ہے کہ آج صرف اس کام کے لئے وہ آئے؟ نبی تو اس لئے مقرر ہوتا ہے کہ اس پر وحی کی جائے اور وحی کی ضرورت یا تو کوئی نیا پیغام دینے کے لئے ہوتی ہے۔ یا پچھلے پیغام کی تکمیل کرنے کے لئے یا اس کو تحریفات سے پاک کرنے کے لئے قرآن اور سنت محمدﷺ کے محفوظ ہوجانے اور دین کے مکمل ہو جانے کے بعد جب وحی کی سب ممکن ضرورتیں ختم ہوچکی ہیں تو اب اصلاح کے لئے صرف مصلحین کی حاجت باقی ہے نہ کہ انبیاء کی۔
۳…نئی نبوت اب امت کے لئے رحمت نہیں بلکہ لعنت ہے
تیسری قابل توجہ بات یہ ہے کہ نبی جب بھی کسی قوم میں آئے گا۔ فوراً اس میں کفر وایمان کا سوال اٹھ کھڑا ہوگا۔ جو اس کو مانیں گے وہ ایک امت قرار پائیں گے اور جو اس کو نہ