صحابہ کرامؓ کا اجماع
قرآن وسنت کے بعد تیسرے درجے میں اہم ترین حیثیت صحابہ کرامؓ کے اجماع کی ہے۔ یہ بات تمام معتبر تاریخی روایات سے ثابت ہے کہ نبیﷺ کی وفات کے فوراً بعد جن لوگوں نے نبوت کا دعویٰ کیا اور جن لوگوں نے ان کی نبوت تسلیم کی۔ ان سب کے خلاف صحابہ کرامؓ نے بالاتفاق جنگ کی تھی۔
اس سلسلے میں خصوصیت کے ساتھ مسیلمہ کذاب کا معاملہ قابل ذکر ہے۔ یہ شخص نبیﷺ کی نبوت کا منکر نہ تھا۔ بلکہ اس کا دعویٰ یہ تھا کہ اسے حضورﷺ کے ساتھ شریک نبوت بنایا گیا ہے۔ اس نے حضورﷺ کی وفات سے پہلے جو عریضہ آپﷺ کو لکھا تھا۔ اس کے الفاظ یہ ہیں: ’’من مسیلمۃ رسول اﷲ الیٰ محمد رسول اﷲ سلام علیک فانی اشرکت فی الامرمعک‘‘ {مسیلمہ رسول اﷲ کی طرف سے محمد رسول اﷲ کی طرف۔ آپ پر سلام ہو۔ آپ کو معلوم ہو کہ میں آپ کے ساتھ نبوت کے کام میں شریک کیاگیا ہوں۔}
(طبری، ج۲ ص۲۰۳، طبع بیروت)
علاوہ برین مؤرخ طبری نے یہ روایت بھی بیان کی ہے کہ مسیلمہ کے ہاں جو اذان دی جاتی تھی۔ اس میں ’’اشہد ان محمد ارسول اﷲ‘‘ کے الفاظ بھی کہے جاتے تھے۔ اس صریح اقرار رسالت محمدی کے باوجود اسے کافر اور خارج از ملت قرار دیاگیا اور اس سے جنگ کی گئی۔
تاریخ سے یہ بھی ثابت ہے کہ بنو حنیفہ نیک نیتی کے ساتھ (In Good Faith) اس پر ایمان لائے تھے اور انہیں واقعی اس غلط فہمی میں ڈالا گیا تھا کہ محمد رسول اﷲﷺ نے اس کو خود شریک رسالت کیا ہے۔ نیز قرآن پاک کی آیات کو ان کے سامنے مسیلمہ پر نازل شدہ آیات کی حیثیت سے ایک ایسے شخص نے پیش کیا تھا جو مدینہ طیبہ سے قرآن پاک کی تعلیم حاصل کر کے گیا تھا۔ (البدایہ والنہایہ لا بن کثیر ج۵ ص۵۱)
مگر اس کے باوجود صحابہ کرامؓ نے ان کو مسلمان تسلیم نہیں کیا اور ان پر فوج کشی کی۔ پھر یہ کہنے کی بھی گنجائش نہیں کہ صحابہؓ نے ان کے خلاف ارتداد کی بناء پر نہیں بلکہ بغاوت کے جرم میں جنگ کی تھی۔ اسلامی قانون کی رو سے باغی مسلمانوں کے خلاف اگر جنگ کی نوبت آئے تو ان کے اسیران جنگ غلام نہیں بنائے جا سکتے۔ بلکہ مسلمان تو درکنار، ذمی بھی اگر باغی ہوں تو گرفتار ہونے کے بعد ان کو غلام بنانا جائز نہیں ہے۔ لیکن مسیلمہ اور اس کے پیروؤں پر جب چڑھائی کی گئی تو حضرت ابوبکرؓ نے اعلان فرمایا کہ ان کی عورتوں اور بچوں کو غلام بنایا جائے گا اور جب وہ لوگ