زبانی توجہ بھی دلائی۔ ہر کام کا ایک وقت ہوتا ہے۔ اس سے پہلے آپ لاکھ کوشش کریں نہیں ہوسکتا۔ چنانچہ اس کتاب کی کتابت وطباعت کے لئے میں نے بہت ہی عجلت اور سعی امکانی سے کام لیا۔ مگر تاخیر پر تاخیر ہوتی رہی۔ کلکتہ، راوڑکیلا، جمشید پور، رانچی۔ رائے گڈھ وغیرہ میں فسادات کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ جس میں احقر راوڑ کیلا اور اس کے اطراف میں ریلیف کے کاموں کی دیکھ بھال میں لگ گیا۔ اس کے بعد میری علالت کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اسی زمانہ میں میں نے یہ چاہا کہ یہ کتاب کلکتہ میں طبع ہو جائے تاکہ اس کی تصحیح کا کام میں خود کروں۔ مگر وہاں یہ کام نہ ہوسکا۔ خداوند کریم نے اس کی سعادت جناب عبدالمجید خاں صاحب عشقی منیجر الجمعیۃ پریس کو بخشی۔ انہوں نے پوری تندہی سے اس خدمت کو انجام دیا۔ میں ان کا شکر ادا کرتے ہوئے ان تمام حضرات سے معذرت خواہ ہوں جنہوں نے اس کے لئے انتظار کی گھڑیاں کاٹیں۔
والعذر عند کرام الناس مقبول فقط والسلام! احقر: محمد اسماعیل عفی عنہ
نئی کرامت
’’مناظرہ یادگیر‘‘ نامی کتاب جسے باتصویر قادیانیوں نے شائع کیا تھا۔ اس سے ایک عظیم فائدہ یہ پہنچا کہ امسال قادیانی مناظر مولوی سلیم مع دیگر رفقاء کے حج کے بہانے پاسپورٹ لے کر حجاز جانا چاہتے تھے۔ جس کے سلسلے میں علماء کرام کلکتہ نے ایک یادداشت عربی میں شاہ فیصل کو روانہ فرمائی تھی اور قادیانی عقائد کے مطابق بطور گواہی کے اسی کتاب کو بمبئی اور دہلی کے سعودی سفارت خانہ میں پیش کیا تھا۔ چونکہ اس میں خود سلیم صاحب قادیانی کی تصویریں تھیں۔ اس لئے سفارت خانے کو قادیانی عقائد کے سمجھنے میں کوئی دقت پیش نہیں آئی اور اس نے قادیانیوں کو حج کے لئے جانے نہیں دیا۔ اس سلسلہ میں الفرقان لکھنؤ کا مندرجہ ذیل بیان پیش خدمت ہے۔ (ماہنامہ الفرقان لکھنؤ ج۳۳ بابت ماہ صفر ۱۳۸۵ھ، مطابق جون ۱۹۶۵ء ص۱۱،۱۲)
حرمین پاک کی حاضری … از محمد منظور نعمانی
قادیانی، سعودی حکومت کی نظر میں
اب کے ایک قابل ذکر واقعہ یہ پیش آیا کہ کلکتہ کے قادیانیوں کی ایک جماعت نے حج کو جانے کا پروگرام بنایا۔ ان کا منصوبہ یہ تھا کہ وہ اس حج کے ذریعہ کلکتہ اور اس کے نواح میں قادیانیت کی تبلیغ کے لئے زمین ہموار کر سکیں گے۔ وہاں سے واپس آکر وہ مسلمان عوام کو بتائیں