۳… مرزاقادیانی تسلیم کرتے ہیں کہ: ’’کلام اﷲ میں رسل کا لفظ واحد پر بھی اطلاق پاتا ہے اور غیر رسول پر بھی اطلاق پاتا ہے۔‘‘ (شہادۃ القرآن ص۲۴، خزائن ج۶ ص۳۱۹) پس ثابت ہوا کہ: ’’یاایہا الرسل کلوا‘‘ میں اوّل تو ان رسولوں کا ذکر ہے جو اس آیت سے پہلے مذکور ہیں۔ لیکن اگر بالفرض آئندہ کے لئے بھی سمجھا جائے تو اس میں تمام صحابہؓ اور اس امت کے اولیاء مجددین شامل ہیں اور علمائے حق بھی جو بنی اسرائیل انبیاء کے مثیل ہیں۔
ہم آخر میں قادیانیوں پر اتمام حجت قائم کرنے کے لئے خود مرزاغلام احمد قادیانی کی ایک ایسی تحریر پیش کرتے ہیں جس میں واضح طور پر تسلیم کیاگیا ہے کہ امت محمدیہ کی اصلاح وتربیت کے لئے کوئی نبی مبعوث نہیں ہوگا۔ بلکہ انبیاء کی بجائے مجدد اور روحانی خلیفے یعنی وارثان محمدﷺ آتے رہیں گے۔
چنانچہ لکھتے ہیں: ’’قرآن نے اس امت میں خلیفوں کے پیدا کرنے کا وعدہ کیا ہے… ایک زمانہ گزرنے کے بعد جب پاک تعلیم پر خیالات فاسدہ کا ایک غبار پڑ جاتا ہے اور حق خالص کا چہرہ چھپ جاتا ہے تب اس خوبصورت چہرے کو دکھلانے کے لئے مجدد اور محدث اور روحانی خلیفے آتے ہیں… مجددوں اور روحانی خلیفوں کی اس امت میں ایسے ہی طور سے ضرورت ہے جیسا کہ قدیم سے انبیاء کی ضرورت پیش آتی رہی ہے۔‘‘
(شہادت القرآن ص۴۴، خزائن ج۶ ص۳۴۰)
مگر افسوس کہ مرزاقادیانی نے بہت جلد قرآن کی اس تعلیم کو بھلا دیا اور خود نبوت کے مدعی بن بیٹھے۔ حالانکہ انہوں نے نہ اپنی نبوت کو قرآن سے ثابت کیا اور نہ اجرائے نبوت کی آیات اپنی کسی کتاب میں درج کرنے کی ہمت کی۔ آج ان کی امت مرزاقادیانی کی وفات کے بعد قرآن کریم کی بیشتر آیات کا غلط مفہوم پیش کر کے اجرائے نبوت ثابت کرنے کی کوشش کر ہی ہے۔ اس لحاظ سے ایک عام قادیانی اپنے نبی سے زیادہ چالاک ہے کہ اسے قرآن میں تسلسل نبوت کی آیات نظر آرہی ہیں۔ اﷲتعالیٰ انہیں ہدایت نصیب کرے اور امت محمدیہ کو ان کے شر سے محفوظ رکھے۔ آمین۔ ’’وما علینا الا البلاغ‘‘
ائمہ واکابر اسلام کے فیصلے
حضرت امام ابو حنیفہؒ (۸۰ھ تا ۱۵۰ھ) کے زمانے میں ایک شخص نے نبوت کا دعویٰ کیا اور کہا: ’’مجھے موقع دو کہ میں اپنی نبوت کی نشانیاں اور دلائل پیش کروں۔‘‘
اس پر امام اعظمؒ نے فرمایا: ’’جو شخص کسی مدعی نبوت سے کوئی نشانی اور دلیل طلب کرے