مرزاقادیانی کا مسلمانوں کے پیچھے نماز نہ پڑھنے کا فتویٰ
مرزاقادیانی اپنے مخالف اور نہ ماننے والے مسلمانوں کو کافر سمجھتا تھا۔ نتیجہ کے طور پر مسلمانوں کے پیچھے نماز نہ پڑھنے کا فتویٰ دے دیا۔
مرزاقادیانی لکھتا ہے: ’’اس کلام الٰہی سے ظاہر ہے کہ تکفیر کرنے والے اور تکذیب کی راہ اختیار کرنے والے ہلاک شدہ قوم ہے۔ اس لئے وہ اس لائق نہیں ہیں کہ میری جماعت میں سے کوئی شخص ان کے پیچھے نماز پڑھے۔کیا زندہ مردہ کے پیچھے نماز پڑھ سکتا ہے۔ پس یاد رکھو جیسا کہ خدا نے مجھے اطلاع دی ہے۔ تمہارے پر حرام اور قطعی حرام ہے کہ کسی مکفر اور مکذب یا متردد کے پیچھے نماز پڑھو۔ بلکہ چاہئے کہ تمہارا وہی امام ہو جو تم میں سے ہو۔ اسی کی طرف حدیث بخاری کے ایک پہلو میں اشارہ ہے کہ ’’امامکم منکم‘‘ یعنی جب مسیح نازل ہوگا تو تمہیں دوسرے فرقوں کو جو دعویٰ اسلام کرتے ہیں۔ بکلی ترک کرنا پڑے گا اور تمہارا امام تم میں سے ہوگا۔ پس تم ایسا ہی کرو کیا تم چاہتے ہو کہ خدا کا الزام تمہارے سر پر ہو اور تمہارے عمل حبط ہو جائیں اور تمہیں کچھ خبر نہ ہو۔ جو شخص مجھے دل سے قبول کرتا ہے۔ وہ دل سے اطاعت بھی کرتا ہے اور ہر حال میں مجھے ’’حکم‘‘ ٹھہراتا ہے اور ہر ایک تنازعہ کا فیصلہ مجھ سے چاہتا ہے۔ مگر جو شخص مجھے دل سے قبول نہیں کرتا اس میں تم نخوت اور خودپسندی اور خود اختیاری پاؤ گے۔ پس جانو کہ وہ مجھ سے نہیں۔ کیونکہ وہ میری باتوں کوجو مجھے خدا سے ملی ہیں۔ عزت سے نہیں دیکھتا۔ اس لئے آسمان پر اس کی عزت نہیں۔‘‘ (اربعین نمبر۳ ص۲۸ حاشیہ، خزائن ج۱۷ ص۴۱۷)
کرشن قادیانی غلام احمد اپنی مفتیانہ شان کا اظہار کرتے ہوئے کہتا ہے: ’’حج میں بھی آدمی یہ التزام کر سکتا ہے کہ اپنے جائے قیام پر نماز پڑھ لیوے اور کسی کے پیچھے نماز نہ پڑھے۔ بعض ائمہ دین سالہا سال مکہ میں رہے۔ لیکن چونکہ وہاں کے لوگوں کی حالت تقویٰ سے گری ہوئی تھی۔ اس لئے کسی کے پیچھے نماز پڑھنا گوارا نہ کیا اور گھر میں پڑھتے رہے۔‘‘ (فتاویٰ احمدیہ ص۲۱)
مرزاقادیانی نے صرف اتنا ہی نہیں لکھا کہ میرے مریدوں پر حرام اور قطعی حرام ہے کہ وہ کسی مسلمان کے پیچھے نماز پڑھیں۔ بلکہ یہاں تک کہہ دیا کہ میرا جو مرید کسی مسلمان کے پیچھے نماز پڑھتا ہے کوئی مرزائی اس کے پیچھے نماز نہ پڑھے۔ جیسا کہ ایک شخص کے سوال پر مرزاقادیانی نے جواب دیا۔
’’جو احمدی ان کے پیچھے نماز پڑھتا ہے۔ جب تک توبہ نہ کرلے ان کے پیچھے نماز نہ پڑھو۔‘‘ (فتاویٰ احمدیہ ص۲۶)