سے جو میرے تجربہ میں آئے وہ لطیف مکاشفات ہیں جو اس زمانے میں میرے پر کھلے۔ چنانچہ بعض گذشتہ نبیوں سے ملاقاتیں ہوئیں اور جو اعلیٰ طبقہ کے اولیاء اس امت میں گزر چکے ہیں۔ ان سے ملاقات ہوئی۔ ایک دفعہ عین بیداری کی حالت میں جناب رسول اﷲﷺ مع حسنین وعلیؓ وفاطمہؓ کے دیکھا۔ غرض اسی طرح کئی مقدس لوگوں کی ملاقاتیں ہوئیں۔‘‘
(کتاب البریہ ص۱۶۵،۱۶۶)
حضرت مرزاصاحب نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بجسدہ العنصری زندہ نہیں مانا بلکہ یہ فرمایا ہے کہ: ’’اگر تنکوں کے سہاروں سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی کا عقیدہ اپنایا جاسکتا ہے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زندگی بدرجۂ اولیٰ ثابت کی جاسکتی ہے۔‘‘ (تحفہ گولڑویہ ص۱۵)
قرآن شریف میں لکھا ہے کہ: ’’ولن نؤمن لرقیک‘‘
ہم تیرا آسمان پر چڑھ جانا نہیں مانیں گے۔ جب تک تو وہاں سے ہم پر کوئی کتاب نہ نازل کرے۔ انہوں نے یہ ہرگز نہیں کہا کہ تو آسمان پر چلا بھی جائے تو بھی ہم نہیں مانیں گے۔ کیونکہ ان کا تو مطالبہ ہی یہی تھا کہ اگر آپ سچے ہیں تو آسمان پر چڑھ جائیں۔ مگر اس خیال سے کہ ان کو آپ کے آسمان پر چڑھنے کا یقین آجائے۔ وہ اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ آپ اپنے آسمان پر چڑھ جانے کا ثبوت بھی بہم پہنچائیں۔ اگر آپ میں دم خم ہے تو اپنے اس ادّعا پر قائم رہئے اور ثابت کیجئے کہ وہ رسول اﷲ کا آسمان پر جانا ممکن سمجھتے تھے۔
ہم توقع رکھتے ہیں کہ ہمارے پیش کردہ تمام دلائل کو نمبروار توڑنے کی کوشش کی جائے گی۔ باقی رہا یہ کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آئیں گے اور دجال کو قتل کریں گے تو یہ تو بالکل قبل از مرگ واویلا والی بات ہے۔ آپ ان کا آسمان پر جانا اور خاکی جسم سمیت زندہ ہونا تو ثابت کر لیں۔ تاہم بڑی صفائی کے ساتھ ہم بیان کر چکے ہیں کہ کسی نبی کے دوبارہ آنے سے کیا مراد ہوتی ہے۔ آپ نے ہماری کسی دلیل کا جواب نہیں دیا۔ آپ نے کہا ہے کہ جو نماز حضرت موسیٰ علیہ السلام پڑھتے ہوں گے وہی حضرت عیسیٰ علیہ السلام پڑھتے ہوں گے۔ ہم لکھ چکے ہیں کہ تمام نبی فوت ہوچکے ہیں اور فوت ہونے کے بعد احکام شریعت کی ادائی فرض نہیں ہوتی۔
آپ نے کوئی ایک آیت یا حدیث بھی ایسی نہیں پیش کی جس سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی خاکی جسم سمیت زندگی ثابت ہو سکے۔ ہم ایک دفعہ پھر آپ کی غیرت سے اپیل کرتے ہیں کہ خدا کے لئے یا تو ہمارے دلائل کو توڑئیے یا اپنے مدعا کو ثابت کیجئے۔
(شرح دستخط) محمد سلیم عفی عنہ، مناظر جماعت احمدیہ