دیں۔ اس لئے عامۃ المسلمین کو ان مارآستینوں سے ہوشیار وچوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔
مرزاقادیانی کے حسب نسب، دعاوی اور امراض میں مناسبت مرزاغلام احمد قادیانی کو جتنی بیماریاں لاحق تھیں۔ اتنے ہی دعوے کر دئیے اور جتنے دعوے کئے اتنے ہی نسب نامے بھی پیش کر دئیے۔ مثلاً سیرۃ المہدی (قادیانی حدیث کی کتاب حصہ اوّل ص۱۳) پر مرزابشیر احمد (مرزاقادیانی کا دوسرا لڑکا) اپنی ماں نصرت جہاں سے روایت بیان کرتا ہے: ’’حضرت مسیح موعود کو پہلی دفعہ دوران سر اور ہسٹیریا کا دورہ بشیر اوّل کی وفات کے چند دن بعد ہوا تھا۔‘‘
ہسٹیریا کے دوروں کا ایک لامتناہی سلسلہ جاری ہوا۔ جس کی وجہ سے کبھی نماز میں امامت نہیں کی۔ ہمیشہ اپنے مریدوں کے پیچھے نماز پڑھا کرتے تھے۔ مرزاقادیانی اپنی ایک نماز کا ذکر یوں کرتے ہیں: ’’میں نماز پڑھ رہا تھا کہ میں نے دیکھا کہ کوئی کالی کالی چیز میرے سامنے سے اٹھی اور آسمان تک چلی گئی۔ پھر میں چیخ مار کر زمین پر گر گیا اور غشی کی سی حالت ہوگئی۔‘‘ اس کے بعد ان کو باقاعدہ دورے پڑنے شروع ہوگئے۔
اس عبرتناک مرض کے علاوہ مرزاقادیانی کواکثر خون کی قے ہوتی رہتی۔ مرزاقادیانی کو مراق کا خطرناک مرض موروثی تھا۔ مرزاغلام احمد قادیانی کے ماموں مرزاجمعیت بیگ بھی مراقی تھے۔ ان کے ایک لڑکے مرزاعلی شیر اور ایک لڑکی حرمت بی بی جو آگے چل کر مرزاقادیانی کی بیوی بنی، پاگل تھے۔ بہرحال مراق کا یہ مرض موروثی تھا اور اب بھی اس کا سلسلہ جاری ہے۔
مرزاقادیانی کو دق اور سل کا مرض بھی تھا۔ اس مرض کا سلسلہ ان کے والد مرزاغلام مرتضیٰ کی زندگی سے ہی چلا آتا تھا۔ اس مرض کے علاوہ ذیابیطس بھی جوانی کے زمانہ سے لاحق تھی۔ کثرت وسلسل بول کا مرض بھی جوانی سے تھا۔ روزانہ کم ازکم تیس چالیس مرتبہ پیشاب آتا۔ لیکن زندگی کا بیشتر حصہ ایسا گزرا ہے۔ جس میں روزانہ سوسومرتبہ رات کو یا دن کو پیشاب آیا کرتا تھا۔ اسی سے اندازہ کیجئے کہ روزانہ کتنے گھنٹے پیشاب خانے میں صرف ہوتے تھے۔ اس کثرت بول سے جس قدر عوارض ضعف وغیرہ ہوتے ہیں۔ وہ سب ان کے شامل حال رہتے۔ حافظہ انتہائی کمزور تھا۔ حتیٰ کہ اپنا عصا بھی نہیں پہچان سکتے تھے۔ ایک ہی جیب میں گڑ کے ڈھیلے بھی رکھتے اور مٹی کے ڈھیلے بھی۔ کبھی طہارت گڑ کے ڈھیلے سے کرتے اور مٹی کے ڈھیلے منہ میں ڈال لیتے ہوں تو مراق کے باعث کیا تعجب؟ جب دستر خوان پر بیٹھے تو روٹی توڑ توڑ کر دسترخوان پر ڈال دیتے اور کبھی خیال آتا کہ میں دستر خوان پر بیٹھا ہوں تو ایک آدھ ٹکڑا منہ میں ڈال لیتے اور دسترخوان سے اٹھ جاتے۔