عبداﷲ ، اے عبدالرحمن، اے مسلمان۔ یہ رہا ایک یہودی، مار اسے، اس طرح اﷲ ان کو فنا کر دے گا اور مسلمان غالب ہوں گے اور صلیب توڑ دیں گے۔ خنزیر کو قتل کردیں گے اور جزیہ ساقط کر دیں گے۔‘‘} (مستدرک حاکم ج۵ ص۶۹۰، حدیث نمبر۸۵۵۴، مسلم، فتح الباری ج۶ ص۴۵۰)
یہ اکیس روایات ہیں جو چودہ صحابیوں سے صحیح سندوں کے ساتھ حدیث کی معتبر ترین کتابوں میں وارد ہوئی ہیں اور سند کے لحاط سے قوی تر ہیں۔ اس کے علاوہ دوسری بہت سی احادیث میں بھی یہ ذکر آیا ہے۔
ان احادیث سے کیا ثابت ہوتا ہے؟
ان احادیث کا قاری خود دیکھ لے گا کہ ان میں کسی ’’مسیح موعود‘‘ یا مثیل مسیح یا ’’بروزی مسیح‘‘ کا سرے سے کوئی ذکر ہی نہیں ہے۔ نہ ان میں اس امر کی گنجائش ہے کہ کوئی شخص اس زمانے میں کسی ماں کے پیٹ اور کسی باپ کے نطفے سے پیدا ہوکر یہ دعویٰ کر دے کہ میں ہی وہ مسیح ہوں۔ جس کے آنے کی سیدنا محمدﷺ نے پیشین گوئی فرمائی تھی۔ یہ تمام حدیثیں صاف اور صریح الفاظ میں ان عیسیٰ علیہ السلام کے نازل ہونے کی خبر دے رہی ہیں۔ جواب سے دوہزار سال پہلے باپ کے بغیر حضرت مریم علیہا السلام کے بطن سے پیدا ہوئے تھے۔ اس مقام پر یہ بحث چھیڑنا بالکل لاحاصل ہے کہ وہ وفات پاچکے ہیں یا زندہ کہیں موجود ہیں۔ بالفرض وہ وفات ہی پاچکے ہوں تو اﷲ انہیں زندہ کر کے اٹھالانے پر قادر ہے۔ وگرنہ یہ بات بھی اﷲ کی قدرت سے ہرگز بعید نہیں ہے کہ وہ اپنے کسی بندے کو اپنی کائنات میں کہیں ہزارہاسال تک زندہ رکھے اور جب چاہے دنیا میں واپس لے آئے (انکار کرنے والے حضرات سورۃ بقرہ کی آیت نمبر۲۵۹ ملاحظ فرمالیں) جس میں اﷲتعالیٰ صاف الفاظ میں فرماتا ہے کہ اس نے اپنے ایک بندے کو سو برس تک مردہ رکھا پھر زندہ کر دیا۔ ’’فاماتہ اﷲ مائۃ عام ثم بعثہ (بقرہ:۲۵۹)‘‘
بہرحال اگر کوئی شخص حدیث کو مانتا ہو تو اسے یہ ماننا پڑے گا کہ آنے والے وہی عیسیٰ ابن مریم ہوں گے اور اگر کوئی شخص حدیث کو نہ مانتا ہو تو وہ سرے سے کسی آنے والے کی آمد کا قائل ہی نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ آنے والے کی آمد کا عقیدہ احادیث کے سوا کسی اور چیز پر مبنی نہیں ہے۔ لیکن یہ ایک عجیب مذاق ہے کہ آنے والے کی آمد کا عقیدہ تو لے لیا جائے احادیث سے، اور پھر انہی احادیث کی اس تصریح کو نظر انداز کر دیا جائے کہ وہ آنے والے عیسیٰ ابن مریم ہوں گے نہ کہ کوئی مثیل مسیح۔
دوسری بات جو اتنی ہی وضاحت کے ساتھ ان احادیث سے ظاہر ہوتی ہے۔ وہ یہ