جب مرزائیوں کے سامنے پیش کی جاتی ہیں تو مرزائی ان کے جوابات سے تنگ آکر کہہ دیاکرتے ہیں کہ پیش گوئیوں کی تفہیم میں مرزاقادیانی سے غلطی ہوسکتی ہے۔ لیکن مرزاقادیانی کی ناجائز ذریت کا یہ کہنا محض دفع الوقتی اور مرزاقادیانی کی تصریحات کے خلاف ہے۔ کیونکہ مرزاقادیانی نے اپنا الہام بیان کیا ہے۔
’’وما ینطق عن الہویٰ ان ہوالا وحی یوحیٰ‘‘ اور یہ اپنی طرف سے نہیں بولتا بلکہ جو کچھ تم سنتے ہو یہ خدا کی وحی ہے۔ (اربعین نمبر۳ ص۳۶، خزائن ج۱۷ ص۴۲۶)
مرزاقادیانی لکھتا ہے: ’’یہ بات بھی اس جگہ بیان کر دینے کے لائق ہے کہ میں خاص طور پر خداتعالیٰ کی اعجاز نمائی کو انشاء پردازی کے وقت بھی اپنی نسبت دیکھتا ہوں۔ کیونکہ جب میں عربی میں یا اردو میں کوئی عبارت لکھتا ہوں تو میں محسوس کرتا ہوں کہ کوئی اندر سے مجھے تعلیم دے رہا ہے۔‘‘ (نزول المسیح ص۵۶، خزائن ج۱۸ ص۴۳۴)
’’ایسا ہی عربی فقرات کا حال ہے۔ عربی تحریروں کے وقت میں صدہا فقرات وحی متلو کی طرح دل پر وارد ہوتی ہے اور یا یہ کہ کوئی فرشتہ ایک کاغذ پر لکھے ہوئے وہ فقرات دکھا دیتا ہے۔‘‘
(نزول المسیح ص۵۷، خزائن ج۱۸ ص۴۳۵)
مندرجہ بالا حوالہ جات سے ثابت ہوتا ہے کہ مرزاقادیانی اپنی طرف سے کچھ نہیں بولتا تھا۔ بلکہ وحی الٰہی سے بولتا تھا اور اپنی طرف سے کچھ نہیں لکھتا تھا۔ بلکہ اندرونی تعلیم سے لکھتا تھا یا فرشتے کی لکھی ہوئی عبارات کو اپنی کتابوں میں نقل کر لیتا تھا۔ اسی کی مزید تائید اس واقعہ سے ہوتی ہے۔ مرزاقادیانی کو الہام ہوا۔
’’استقامت میں فرق آگیا۔‘‘ ایک صاحب نے کہا کہ وہ کون شخص ہے۔ حضرت نے فرمایا معلوم تو ہے۔ مگر جب تک خدا کا اذن نہ ہو ہو میں بتلایا نہیں کرتا۔ میرا کام دعا کرنا ہے۔
(البدر ج۲ نمبر۱۰، ۱۹۰۳ئ، از مکاشفات ص۳۰) اس واقعہ نے تصدیق کر دی کہ مرزاقادیانی بغیر اﷲ کے اذن کے کچھ نہیں کہا کرتا تھا۔ ان حالات میں تو مرزاقادیانی کے کلام یا تحریر میں غلطی کا احتمال ہی نہ رہا۔ مرزاقادیانی کے اس الہام اور اس کی تحریرات کو غور سے پڑھنے کے بعد اب یہ بتانا مرزائیوں کا کام ہے کہ مرزاقادیانی اپنی تحریر یا تقریر میں ’’اجتہادی غلطیوں‘‘ کا قائل تھا یا نہیں؟
مرزاقادیانی کے انٹ سنٹ الہامات
مرزاقادیانی کا دعویٰ تھا کہ میری وحی والہامات یقینی اور قرآن پاک کی طرح ہیں۔