‘‘ مجھ کو فانی کرنے اور زندہ کرنے کی صفت دی گئی ہے۔ (خطبہ الہامیہ ص۲۳، خزائن ج۱۶ ص۵۵،۵۶) مرزامفتری اپنا الہام بیان کرتا ہے: ’’انما امرک اذا اردت شیئاً ان تقول لہ کن فیکون‘‘ اے مرزا تحقیق تیرا ہی حکم ہے۔ جب توکسی شے کا ارادہ کرے تو اس سے کہہ دیتا ہے۔ پس وہ ہو جاتی ہے۔ (البشریٰ ج۲ ص۹۴)
اس سے ثابت ہوا کہ مرزاقادیانی کو کن فیکون کے اختیارات حاصل ہیں۔ زندہ کرنے اور فنا کرنے کی صفت بھی مرزاقادیانی میں موجود ہے۔ مرزاقادیانی نے نئے آسمان اور زمین بھی بنائے۔ آدم علیہ السلام کو بھی پیدا کیا۔ اب یہ بتانا قادیانیوں کا کام ہے کہ خدائی کا دعویٰ کرنے میں کون سی کسر باقی رہ گئی ہے؟
قارئین کرام! نہایت ہی اختصار کے ساتھ مرزاملعون کے خلاف اسلام عقائد اور دعاوی اسی کے الفاظ میں آپ کے سامنے پیش کر دئیے ہیں۔ مرزاقادیانی کے ان معجون مرکب اقوال والہامات کودیکھ کر آپ متعجب نہ ہوں۔ حقیقت حال یہ ہے کہ خداتعالیٰ نے مرزاقادیانی کو کھلی چھٹی دے دی تھی کہ اے مرزاناجائز اور ممنوع افعال بھی تمہارے لئے حلال کر دئیے گئے ہیں۔ جو تمہارا جی چاہتا ہے کر لو۔ جیسا کہ مرزاقادیانی خود اپنا الہام بیان کرتا ہے۔ ’’اعملوا ماشئتم انی غفرت لکم‘‘ اے مرزا جو تو چاہے کر ہم نے تجھے بخش دیا۔
(البدر ج۳ ص۸ نمبر۱۶،۱۷)
پس جب خدا نے ہی مرزاقادیانی سے پابندی شریعت کی تمام قیود اٹھالیں تو ایسی حالت میں مرزاقادیانی جو کچھ بھی کر لیتا اس کے لئے جائز تھا اور اسے اس بات کی ضرورت ہی نہ تھی کہ وہ اپنے عقائد کو اور اقوال کو قرآن کریم اور حدیث شریف کی کسوٹی پر پرکھنے کی تکلیف گوارہ کرتا۔
مرزاقادیانی کا دعویٰ نبوت
’’ہمارا دعویٰ ہے کہ ہم نبی اور رسول ہیں۔‘‘ (بدر مورخہ ۵؍مارچ ۱۹۰۸ئ)
’’میری دعوت کی مشکلات میں سے ایک رسالت، ایک وحی الٰہی اور مسیح موعود کا دعویٰ تھا۔‘‘ (براہین احمدیہ حصہ پنجم ص۵۵ حاشیہ، خزائن ج۲۱ ص۶۸)
مرزاقادیانی کہتا ہے: ’’غرض اس حصہ کثیر وحی الٰہی اور امور غیبیہ میں اس امت میں سے میں ہی ایک فرد مخصوص ہوں اور جس قدر مجھ سے پہلے اولیائ، ابدال اور اقطاب اس امت میں سے گذر چکے ہیں۔ ان کو یہ حصہ کثیر اس نعمت کا نہیں دیاگیا۔ پس اس وجہ سے نبی کا نام پانے کے لئے میں ہی مخصوص کیاگیا اور دوسرے تمام لوگ اس نام کے مستحق نہیں۔ کیونکہ کثرت وحی اور