۷… ’’ہم کو خداتعالیٰ کے اس کلام پر جو ہم پر وحی کے ذریعہ نازل ہوتا ہے۔ اس قدر یقین اور علیٰ وجہ البصیرت یقین ہے کہ بیت اﷲ میں کھڑا کر کے جس قسم کی چاہو قسم دے دو۔‘‘
(ایک غلطی کا ازالہ ص۳، خزائن ج۱۸ ص۲۱۰)
۸… ’’خدا کا کلام اس قدر مجھ پر نازل ہوا ہے کہ اگر وہ تمام لکھا جائے تو بیس جزو سے کم نہ ہوگا۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۳۹۱، خزائن ج۲۲ ص۴۰۷)
۹… ’’میں جیسا کہ قرآن شریف پر ایمان رکھتا ہوں۔ ایسا ہی بغیر فرق ایک ذرہ کے خدا کی اس کھلی وحی پر ایمان لاتا ہوں جو مجھ پر ہوئی۔‘‘ (ایک غلطی کا ازالہ ص۶، خزائن ج۱۸ ص۲۱۰)
۱۰… ’’میں خداتعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ ان الہامات پر اسی طرح ایمان لاتا ہوں۔ جیسا کہ قرآن شریف پر۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۲۱۱، خزائن ج۲۲ ص۲۲۰)
ان دس حوالوں سے آپ اچھی طرح جان سکتے ہیں کہ ہم جس طرح قرآن شریف کو خدا کی آخری کتاب مانتے ہیں۔ ٹھیک اسی طرح قادیانی نبی اور اس کی امت مرزاقادیانی کے الہام کو قرآن سمجھتی ہے۔ اس لئے اسلام وکلمہ شریف کے مانند قادیانیوں کا قرآن بھی الگ ہے۔
حدیث شریف
حدیث شریف کے بارے میں ہمارا یہ یقین ہے کہ وہ اسلام میں حجت ودلیل ہے۔ اﷲ کے رسول محمد مصطفیٰﷺ نے اپنے ارشادات واعمال کے ذریعہ قرآن کریم کے احکام کی تشریح وتفصیل بیان فرمائی۔ لیکن قادیانی کیا سمجھتے ہیں ملاحظہ فرمائیے:
۱… ’’ہم خدا کی قسم کھا کر بیان کرتے ہیں۔ میرے اس دعویٰ کی بنیاد حدیث نہیں۔ بلکہ قرآن اور وہ وحی ہے جو مجھ پر نازل ہوئی۔ ہاں تائیدی طور پر ہم وہ حدیثیں بھی پیش کرتے ہیں جو قرآن کے مطابق ہیں اور میری وحی کے معارض نہیں اور دوسری حدیثوں کو ہم ردی کی طرح پھینک دیتے ہیں۔‘‘ (اعجاز احمدی ص۳۱، خزائن ج۱۹ ص۱۴۰)
۲… ’’جو شخص حکم ہوکر آیا ہے۔ اسے اختیار ہے کہ حدیثوں کے ذخیرے میں سے جس انبار کو چاہے خدا سے حکم پاکر قبول کرے اور جس ڈھیر کو چاہے خدا سے علم پاکر رد کر دے۔‘‘
(تحفہ گولڑویہ ص۱۰، خزائن ج۱۷ ص۵۱ حاشیہ)
۳… ’’مسیح موعود (مرزاقادیانی) سے جو باتیں ہم نے سنی ہیں۔ وہ حدیث کی روایت سے معتبر ہیں۔ کیونکہ حدیث ہم نے آنحضرتﷺ کے منہ سے نہیں سنی۔‘‘
(الفضل قادیان مورخہ ۲۹؍اپریل ۱۹۱۵ئ، بیان مرزامحمود)