M
اجرائے نبوت کے مسئلے پر جماعت احمدیہ کا تیسرا پرچہ
سامعین کرام! اجرائے نبوت کے مسئلے پر ہمارے مدمقابل نے نبوت کی نعمت کے ختم ہوجانے کے متعلق جو دلائل دئیے ہیں وہ آپ نے سماعت فرمالئے ہیں۔ ایک موٹی سی بات ہے کہ نیک اور مخیر لوگ اپنی زندگی میں بعض ایسے کام کر جاتے ہیں جو مفید عام ہوتے ہیں۔ کوئی مسجد بنواتا ہے۔ کوئی سرائے بنواتا ہے، کوئی تالاب بنواتا ہے اور کوئی سڑک بنواتا ہے۔ دنیا ایک لمبے عرصے تک ان چیزوں سے فائدہ اٹھاتی ہے۔ ان کے بانیوں کو دعائے خیر سے یاد کرتی ہے۔
حضرت رسول کریمﷺ کے زمانے میں مخالفین آپؐ کو نعوذ باﷲ ابتر کہتے تھے۔ اس کا جواب اﷲتعالیٰ نے یہ دیا کہ اے ہمارے رسولﷺ کے مخالفو! تم جو بات آپؐ کی طرف منسوب کر رہے ہو۔ وہ غلط ہے۔ بلکہ ایسا کہنے والے خود ابتر ہیں۔ کیونکہ آئندہ زمانے میں ان کا نام ونشان مٹا دیا جائے گا اور رسول کریمﷺ کو اﷲتعالیٰ وہ عظمت دے گا کہ آپؐ پر درود بھیجنے والے خدام دنیا کے کونے کونے میں پھیل جائیں گے اور آپؐ کی امت میں لاتعداد فقہائ، صلحائ، اولیائ، اقطاب اور علماء پیدا ہوں گے۔ تاآنکہ چودھویں صدی میں چودھویں کا چاند ظاہر ہوگا جو آپ کا عاشق صادق اور بروز کامل بن کر مقام نبوت پر فائز ہوگا۔ چنانچہ اس کے مطابق حضورﷺ کا ایک خادم اور آپ کا ایک غلام اصلاح امت کے لئے مامور ہوا اور اس نے اعلان کیا کہ میں آنحضرتﷺ کی غلامی میں اور حضور کے انوار وفیضان سے حصہ پاکر اﷲتعالیٰ کی طرف سے اس زمانے میں ظلی نبوت کے مقام پر فائز کیاگیا ہوں۔
ایک طرف تو ہمارے مدمقابل یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ کو جو بلند روحانی مقام دیاگیا وہ کسی اور نبی کو آج تک نہیں مل سکا۔ دوسری طرف یہ کہتے ہیں کہ آپ کے بعد بنوت کا دروازہ ہمیشہ کے لئے بند ہوگیا اور یہ نعمت امت محمدیہ سے چھین لی گئی۔
اب ایک طرف قرآن کریم اور احادیث اور اقوال بزرگان سلف ہیں اور دوسری طرف ہمارے مدمقابل ہیں۔ لیکن ان کے کہنے سے کیا ہوتا ہے۔ اﷲتعالیٰ کا ارادہ پورا ہوچکا اور وہ نعمت جسے ملنی تھی مل چکی۔ آج روئے زمین پر اسلام کی تبلیغ کرنے والی ایک منظم جماعت جو منہاج نبوت پر قائم ہے صرف ’’احمدیہ جماعت‘‘ ہے۔ جو آنحضرتﷺ کی غلام اور اسلام کی خادم ہے۔