آپ نے لکھا ہے کہ جس طرح خلائی مسافر خلا میں سفر کرتے ہیں۔ اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی خلا میں چلے گئے ہیں۔ آپ کو یاد رہے کہ اﷲتعالیٰ نے قرآن مجید میں حضرت محمد رسول اﷲﷺ سے پہلے تمام نبیوں کے لئے ’’قد خلت‘‘ کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں۔ اب بقول آپ کے اس کے معنی یہ ہوئے کہ ایک لاکھ چوبیس ہزار نبی مسلسل خلا میں گھوم رہے ہیں۔ اگر آپ اسی پر خوش ہیں تو ہمیں آپ سے کوئی شکایت نہیں ہے۔ مگر تسلیم کر لیجئے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی ان خلائی نبیوں کے ہمرکاب ہیں۔
خدا جانے ہمارے مدمقابل کی عقل اور سمجھ کو کیا ہوگیا ہے۔ جو خلائی مسافروں کا حوالہ دے رہے ہیں۔ حالانکہ وہ زمین پر سے تمام لوازم زندگی لے کر خلا میں جاتے ہیں۔ یعنی کھانا، پینا اور آکسیجن اور ضروری گیس وغیرہ۔ نیز وہ خلائی جہاز بذات خود زمینی اشیاء سے بنا ہوتا ہے۔
بہرحال ہمیں خوشی ہے کہ آپ حضرت مسیح علیہ السلام کو سماء سے اتار کر خلاء میں لے آئے ہیں۔ اگلے مناظرہ میں خدا کرے کہ انہیں فضا میں اور پھر زمین میں مدفون مان لیں۔ آپ نے تحریر کیا ہے کہ مسیح علیہ السلام کی ساری زندگی از ابتداتا انتہاء قانون قدرت کے خلاف ہے۔ حالانکہ قرآن مجید نے تو ’’ان مثل عیسیٰ عند اﷲ کمثل اٰدم‘‘ فرمایا ہے کہ وہ بھی دوسرے رسولوں ہی کی طرح ایک رسول تھے۔ البتہ انسان کے آسمان پر جانے کو بشریت کے منافی اور خدا کی خدائی کے خلاف ضرور کہا گیا ہے۔ اسی لئے ہم بھی حضرت مسیح علیہ السلام کو آسمان پر زندہ نہیں مان سکتے۔ معراج نبوی کا ذکر تو صرف اس لئے کیاگیا تھا۔ آنحضرتﷺ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو فوت شدہ نبیوں میں دیکھا تھا۔ سو اگر زندہ ہیں تو سب زندہ ہیں اور اگر وفات پاگئے ہیں تو سب وفات پاگئے ہیں۔
آپ باربار سید ولی اﷲ شاہ صاحب دہلویؒ کا ترجمہ القرآن پیش کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں حضرت مرزاقادیانی کا یہ فرمان پیش نظر رہنا چاہئے کہ آپ فرماتے ہیں: ’’ہماری جماعت کا یہ فرض ہونا چاہئے کہ اگر کوئی حدیث معارض اور مخالف قرآن وسنت نہ ہو تو خواہ وہ کیسی ہی ادنیٰ درجہ کی حدیث ہو اس پر وہ عمل کریں اور انسان کی بنائی ہوئی فقہ پر اس کو ترجیح دیں۔‘‘
(ریویو پر مباحثہ محمد حسین بٹالوی، عبداﷲ چکڑالوی)
ہم سے پوچھا گیا ہے کہ حضرت مرزاصاحب نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے علاوہ اور کسی نبی سے کشفی ملاقات کیوں نہیں کی؟ سو یاد رہے کہ حضور فرماتے ہیں: ’’روزہ کے عجائبات میں